آفتاب اب نہیں نکلنے کا
Appearance
آفتاب اب نہیں نکلنے کا
دور آیا شراب ڈھلنے کا
سانپ کہتے ہیں زلف کو شاعر
کام کرتے ہیں منہ کچلنے کا
لاکھ ہم چکنی چپڑی بات کریں
ان کا دل اب نہیں پھسلنے کا
صفت لب میں شعر کہتے ہیں
اب ارادہ ہے لعل اگلنے کا
کوٹتے ہیں جو اپنا ہم سینہ
ہے عوض چھاتیاں مسلنے کا
کیوں نہ ہر طرز میں ہو بات نئی
پاں ہے قابو زباں بدلنے کا
ایک بوسے کی بھی جمائے اب
قصد ہے ان کو مسی ملنے کا
نخل ماتم کے سائے میں نہ ٹھہر
ہے مسافر جو قصد چلنے کا
چشم پوشی سے طفل اشک اپنا
ڈھنگ سیکھا ہے اب مچلنے کا
حفظ تیر نگہ ہے عین خطا
نہیں پیغام موت ٹلنے کا
ہم بھی کھیلا کریں گے جان پر اب
شغل اچھا ہے دل بہلنے کا
مہرؔ حربا سے دوستی تا چند
غم نہیں رنگ کے بدلنے کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |