آج گلشن میں کس کا پرتو ہے
Appearance
آج گلشن میں کس کا پرتو ہے
ہر کلی گل کی شمع کی لو ہے
خضر ہر چند پہنچے آب حیات
زندگی جیسے پانی کی رو ہے
پیسے ہے اس کو آسیائے فلک
جس کے پاس ایک مشت بھی جو ہے
غیر سے لینا امتحان وفا
یہ جفا مجھ پر از سر نو ہے
ہے کدھر وہ غزال جس کے لیے
رات دن مجھ کو یہ تگ و دو ہے
ہے یہ ؔجوشش وفا سرشتوں میں
تو جو کہتا ہے بے وفا تو ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |