Jump to content

آج گلشن میں کس کا پرتو ہے

From Wikisource
آج گلشن میں کس کا پرتو ہے
by جوشش عظیم آبادی
303109آج گلشن میں کس کا پرتو ہےجوشش عظیم آبادی

آج گلشن میں کس کا پرتو ہے
ہر کلی گل کی شمع کی لو ہے

خضر ہر چند پہنچے آب حیات
زندگی جیسے پانی کی رو ہے

پیسے ہے اس کو آسیائے فلک
جس کے پاس ایک مشت بھی جو ہے

غیر سے لینا امتحان وفا
یہ جفا مجھ پر از سر نو ہے

ہے کدھر وہ غزال جس کے لیے
رات دن مجھ کو یہ تگ و دو ہے

ہے یہ ؔجوشش وفا سرشتوں میں
تو جو کہتا ہے بے وفا تو ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.