آتا ہے کس انداز سے ٹک ناز تو دیکھو
Appearance
آتا ہے کس انداز سے ٹک ناز تو دیکھو
کس دھج سے قدم پڑتا ہے انداز تو دیکھو
طاؤس پری جلوہ کو ٹھکرا کے چلے ہے
انداز خرام بت طناز تو دیکھو
یک جنبش لب اس کی نے لاکھوں کو جلایا
عیسیٰ کو یہ قدرت تھی تم اعجاز تو دیکھو
کرتا ہوں میں دزدیدہ نظر گر کبھی اس پر
نظروں میں پرکھ لے ہے نظر باز تو دیکھو
میں کنگرۂ عرش سے پر مار کے گزرا
اللہ رے رسائی مری پرواز تو دیکھو
اے وائے کہ اس سعی پر اپنی کبھی اس سے
سازش نہ ہوئی طالع ناساز تو دیکھو
کیا بولنے میں اس بت کافر کی ادا ہے
شیریں سخنی اک طرف آواز تو دیکھو
ابتر ہے یہ دیواں تو میاں مصحفیؔ سارا
انجام کی کیا کہتے ہو آغاز تو دیکھو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |