آتا ہوں جب اس گلی سے سو سو خواری کھینچ کر
Appearance
آتا ہوں جب اس گلی سے سو سو خواری کھینچ کر
پھر وہیں لے جائے مجھ کو بے قراری کھینچ کر
پہنچا ہے اب تو نہایت کو ہمارا حال زار
لا اسے جس تس طرح تاثیر زاری کھینچ کر
کوہ غم رکھتی ہے دل پر اس خرام ناز سے
خجلت رفتار کبک کوہساری کھینچ کر
کس کے شور عشق سے یوں روتا رہتا ہے سدا
نالہ و فریاد یہ ابر بہاری کھینچ کر
باندھوں ہوں وارستگی کا دل میں اپنے جب خیال
باندھ لے جائیں ہمیں زلفیں تمہاری کھینچ کر
کل جو تو گھر سے نہ نکلا اٹھ گیا کر کے دعا
صبح سے تا شام میں کیا انتظاری کھینچ کر
گالیاں دے مار لے یا قتل کر مختار ہے
لائی اب تو یاں مجھے بے اختیاری کھینچ کر
ساقیا پیہم پلا دے مجھ کو مالا مال جام
آیا ہوں یاں میں عذاب ہوشیاری کھینچ کر
حسرتؔ اس کی بزم کے جانے سے رکھ مجھ کو معاف
مفت میں روئے گا واں سے شرمساری کھینچ کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |