آب حیات/پانچواں دور/تمہید
دیکھنا! وہ لالٹینیں جگمگانے لگیں۔ اٹھو اٹھو استقبال کر کے لاؤ۔ اس مشاعرہ میں وہ بزرگ آتے ہیں جن کے دیدار ہماری آنکھوں کا سُرمہ ہوئے، اس میں دو قسم کے باکمال نظر آئیں گے، ایک وہ کہ جنھوں نے اپنے بزرگوں کی پیروی کر دین آئین سمجھا۔ یہ اُن کے باغوں میں پھریں گے۔ پرانی شاخیں زرد پتے کاٹیں بھاٹیں گے۔ اور نئے رنگ نئے ڈھنگ کے گلدستے بنا بنا کر گلدانوں سے طاق و ایوان سجائیں گے۔ دوسرے وہ عالی دماغ جو فکر کے دخان سے ایجاد کی ہوائیں اڑائیں گے، اور برج آتشبازی کی طرح اس سے رتبہ عالی پائیں گے۔ انھوں نے اس ہوا سے بڑے بڑے کام لئے۔ مگر یہ غضب کیا کہ گرد و پیش جو وسعت بے انتہا پڑی تھی اس میں سے کسی جانب میں نہ گئے۔ بالاخانوں میں سے بالا بالا اڑ گئے چنانچہ تم دیکھو گے کہ بعض بلند پرواز ایسے اوج پر جائیں گے جہاں آفتاب تارا ہو جائے گا۔ اور بعض ایسے اڑیں گے کہ اڑ ہی جائیں گے۔ وہ اپنے آئین کا نام خیال بندی اور نازک خیالی رکھیں گے۔ مگر حق یہ ہے کہ شاعری انکی ساھری اور خود اپنے وقت کے سامری ہوں گے۔ ساتھ اسکے صاحبِ اقبال ایسے ہوں گے کہ انھیں پرستش کرنے والے بھی ایسے ہی ہاتھ آئیں گے۔ ان بزرگوں کی نازک خیالی میں کچھ کلام نہیں لیکن اتنا ہے کہ اب تک مضمون کا پھول اپنے حسن خداداد کے جوبن سے فصاحت کے چمن میں لہلہاتا تھا۔ یہ اس کی پنکھڑیاں لیں گے اور اُن پر موقلم سے ایسی نقاشی کریں گے کہ بے عینک کے نہ دکھائی دے گی۔ اس خیال بندی میں یہ صاحب کمال اس قدرتی لطافت کی بھی پروا نہ کریں گے جسے تم حسنِ خداداد سمجھتے ہو، کیوں کہ ان کی صنعت بے اس کے اپنا رنگ نہیں دکھا سکتی۔
پہلے بزرگ گرد و پیش کے باغوں کا پتّا پتّا کام میں لا چکے تھے۔ اب نئے پھول کہاں سے لاتے، آگے جانے کی سڑک نہ تھی اور سڑک نکالنے کے سامان نہ تھے۔ ناچار اِس طرح اُستادی کا نقارہ بجایا۔ اور ہمعصروں میں تاج افتخار پایا۔ یہ آخری دور کی مصیبت کچھ ہماری ہی زبان پر نہیں پڑی۔ فارسی کے متقدمین کو اسکے متاخرین سے مطابق کر لو۔ شعرائے جاہلیت کا متاخرین عرب سے مقابلہ کرو۔ انگریزی اگرچہ میں نہی ں جانتا۔ مگر اتنا جانتا ہوں کہ اس کے متاخرین بھی اس درد سے نالاں ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ زبان جب تک عالمِ طفولیت میں رہتی ہے تبھی تک شیر و شربت کے پیالے لنڈھاتی ہے۔ جب پختہ سال ہوتی ہے تو خوشبو عرق اس میں ملاتی ہے۔ تکلف کے عطر ڈھونڈھ کر لاتی ہے پھر سادگی اور شیریں ادائی تو خاک میں مل جاتی ہے۔ ہاں دواؤں کے پیالے ہوتے ہیں۔ جس کا جی چاہے پیا کرے۔
اِس موقع پر یہ کہنا واجب ہے کہ ان سے پہلے جو صاحب کمال لکھنؤ میں تھے وہ دلی کے خانہ برباد تھے۔ وہ یا ان کی اولادیں اس وقت تک دلّی کو اپنا وطن سمجھتے تھے اور اہل لکھنؤ ان کی تقلید کو فخر سمجھتے تھے نہ کہ عیب۔ کیوں کہ وہاں اب تک کوئی صاحب کمال اس درجہ کا پیدا نہ ہوا تھا، اب وہ زمانہ آتا ہے کہ انھیں خود صاحب زبانی کا دعویٰ ہو گا اور زیبا ہو گا۔ اور جب ان کے اور دلی کے محاورہ میں اختلاف ہو گا تو اپنے محاورے کی فصاحت اور دلّی کے اہل انصاف بھی تسلیم کریں گے۔ بلکہ انہی کے بعض بعض نکتوں کو دلّی کے اہل انصاف بھی تسلیم کریں۔ ان بزرگوں نے بہت قدیمی الفاظ چھوڑ دیئے۔ جن کی کچھ تفصیل چوتھے دیباچہ میں لکھی گئی اور اب جو زبان دلّی اور لکھنؤ میں بولی جاتی ہے وہ گویا انہی کی زبان ہے۔ البتہ شیخ ناسخؔ کے دیوان میں ایک جگہ زور کا لفظ بہت کے معنوں میں دیکھا گیا۔ شاید یہ ابتاد کا کلام ہو۔
عابد و زاہد چلے آتے ہیں پینا ہے شراب
اب تو ناسخؔ زور رندِ لا اُبالی ہو گیا
اساتذہ دہلی کے کلام میں آئے ہے، اور جائے ہے، اکثر ہے مگر اخیر کی غزلوں میں انھوں نے بھی بچاؤ کیا ہے۔
شاہ نصیر مرحوم سن رسیدہ شخص تھے، آغاز شاعری کا کفارہ جراءت اور سید انشا سے مِلا ہوا تھا اور انجام کی سرحد ناسخؔ، آتشؔ اور ذوقؔ میں واقع ہوئی تھی، اس لئے ابتدائی غزلوں میں کہیں کہیں ٹک بول جاتے ہیں اور جس طرح جمع مؤنث کے فعلوں کو الف نون کے ساتھ چوتھے طبقہ میں بے تکلف بولتے تھے۔ اِن کی ابتدائی غزلوں میں کہیں کہیں ہے، چنانچہ میر کی غزل مطلع ہے۔
جفائیں دیکھ لیاں بیوفائیاں دیکھیں
بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں
کبھی نہ اُس رُخ روشن پہ جھائیاں دیکھیں
گھٹائیں چاند پہ سو بار آئیاں دیکھیں
اسی طرح موصوف جمع ہو اور صفت لفظ ہندی ہو تو اب موصوف کی مطابقت کے لیے صفت کو جمع بولنا خلاف فصاحت سمجھتے ہیں، مگر خواجہ صاحب فرماتے ہیں :-
عہد طفلی میں بھی تھا میں بسکہ سودائی مزاج
بیڑیاں منّت کی بھی پہنی تو میں نے بھاریاں