Jump to content

آب حیات/نظم اردو کی تاریخ

From Wikisource

فلاسفہ یونان کہتے ہیں شعر خیالی باتیں ہیں، جن کو واقعیت اور اصلیت سے تعلق نہیں، قدرتی موجودات یا اس کے واقعات کو دیکھ کر جو خیالات شاعر کے دل میں پیدا ہوتے ہیں وہ اپنے مطلب کے موقع پر موزوں کر دیتا ہے، اس خیال کو سچ کی پابندی نہیں ہوتی، جب صبح کا نور و ظہور دیکھتا ہے تو کبھی کہتا ہے دیگِ مشرق سے دُود اُبلنے لگا، کبھی کہتا ہے دریائے سیماب موج مارنے لگا، کوئی مشرق سے کافور اُڑاتا آتا ہے، صبح طباشیر بکھیرتی آتی ہے، یا مثلاً سورج نکلا اور کرن ابھی اس میں نہیں پیدا ہوئے، وہ کہتا ہے، سنہری گیند ہوا میں اُچھالی ہے، صبح طلائی تھال سر پر دھرے آتی ہے، کبھی مُرغانِ سحر کا غل اور عالمِ نور کا جلوہ آفتاب کی چمک دمک اور شعاعوں کا خیال کر کے صبح کی دھوم دکھاتا ہے اور کہتا ہے بادشاہِ مشرق سبزک فلک پر سوار، تاجِ مرصع سر پر رکھے کرن کا نیزہ لئے مشرق سے نمودار ہوا، شام کو شفق کی بہار دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ مغرب کے چپرکھٹ میں آرام کیا اور شنگرفی چادر تان کر سو رہا، کبھی کہتا ہے جام فلک خون سے چھلک رہا ہے، نہیں مغرب کے ایوان میں آگ لگ گئی، تاروں بھری رات میں چاند کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے، لاجوردی چادر میں ستارے ٹنکے ہوئے ہیں۔ دریائے نیل میں نور کا جہاز چلا جاتا ہے اور روپہلی مچھلیاں تیرتی پھرتی ہیں، غرض ایسی باتیں ہیں کہ نہایت لطف دیتی ہیں، مگر اصلیت سے اُنھیں کچھ بھی غرض نہیں ہے، باوجود اس کے صنعت گاہِ عالم میں نظم ایک عجیب صنعت صنائع الٰہی سے ہے، اسے دیکھ کر عقل حیران ہوتی ہے کہ اول ایک مضمون کو ایک سطر میں لکھتے اور نثر میں پڑھتے ہیں، پھر اسی مضمون کو فقط لفظوں کے پس و پیش کے ساتھ لکھ کر دیکھتے ہیں تو کچھ اور ہی عالم ہو جاتا ہے بلکہ اس میں چید کیفیتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔

۱ – وہ وصفِ خاص ہے کہ جسے سب موزونیت کہتے ہیں۔

۲ – کلام میں زور زیادہ ہو جاتا ہے اور مضمون میں ایسی تیزی آ جاتی ہے کہ اثر کا نشتر دل پر کھٹکتا ہے۔

۳ – سیدھی سادی بات میں ایسا لطف پیدا ہو جاتا ہے کہ سب پڑھتے ہیں اور مزے لیتے ہیں۔ تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب خوشی یا غم و غصہ یا کسی کے ذوق و شوق کا خیال دل میں جوش مارتا ہے اور وہ قوتِ بیان سے ٹکر کھاتا ہے تو زبان سے خود بخود موزوں کلام نکلتا ہے جیسے پتھر اور لوہے کے ٹکرانے آگ نکلتی ہے اسی واسطے شاعر وہی ہے جس کی طبیعت میں یہ صنعتِ خداداد ہو، قدرتی شاعر اگرچہ ارادہ کر کے شعر کہنے کو خاص وقت میں بیٹھتا ہے مگر حقیقت میں اِس کا دل اور خیالات ہر وقت اپنے کام میں لگے رہتے ہیں، قدرت کے کارخانے میں جو چیز اس کے حواس میں محسوس ہوتی ہے اور اُس سے کچھ اثر اس کی طبیعت اُٹھاتی ہے وہ ہر شخص کو نصیب نہیں، خواہ لطف و شگفتگی ہو، خواہ آزردگی یا بیزاری، یہ ضرور ہے کہ جو کیفیت وہ آپ اُٹھاتا ہے اس کے لئے ڈھونڈتا رہتا ہے کہ کیسے لفظ ہوں اور کس طرح انھیں ترکیب دوں تا کہ جو کیفیت اس کے دیکھنے سے میرے دل پر طاری ہے وہی کیفیت سننے والوں کے دل پر چھا جائے اور وہ بات کہوں کہ دل پر اثر کر جائے۔

شاعر کبھی ایک حجرہ میں تنہا بیٹھتا ہے، کبھی سب سے الگ اکیلا پھرتا ہے کبھی کسی درخت کے سایہ میں تنہا نظر آتا ہے اور اسی میں خوش ہوتا ہے، وہ کیسی ہی خستہ حالی میں ہو مگر مزاج کا بادشاہ اور دل کا حاتم ہوتا ہے، بادشاہ کے پاس فوج و سپاہ، دفتر و دربار اور ملک داری کے سب کارخانے اور سامان موجود ہیں، اس کے پاس کچھ نہیں، مگر الفاظ اور معانی سے وہی سامان بلکہ اس سے ہزاروں درجے زیادہ تیار کر کے دیکھا دیتا ہے، بادشاہ سالہا سال کِن کِن خطرناک معرکوں سے ملک یا خزانہ جمع کرتا ہے، یہ جسے چاہتا ہے گھر بیٹھے دے دیتا ہے اور خود پرواہ نہیں کرتا۔ بادشاہ کو ایک ولایت فتح کر کے وہ خوشی حاصل نہیں ہوتی جو اُسے ایک لفظ کے ملنے سے ہوتی ہے جو اپنی جگہ پر موزوں سجا ہوا ہو، اور حق یہ ہے کہ اُسے ملک کی پروا بھی نہیں۔

اس بات میں جو کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ یہ ہے کہ شیخ ابراہیم ذوق جس مکان میں بیٹھتے تھے تنگ و تاریک تھا، گرمی میں دل دق ہو جاتا تھا، بعض قدیمی احباب کبھی جاتے تو گھبراتے اور کہتے کہ مکان بدلو، گھڑی بھر بھی بیٹھنے کے قابل نہیں۔ تم کیونکر دن رات یہیں کاٹتے ہو؟ وہ ہوں ہاں کرتے اور چپکے ہو رہتے، کبھی مسکراتے، کبھی جو غزل کہتے ہوتے اُسے دیکھنے لگتے، کبھی اُن کا منہ دیکھتے، خدا نے مکانات، باغ، آرام و آسائش کے سب سامان دیئے تھے مگر وہ وہیں بیٹھے رہے اور ایسے بیٹھے کہ مر کر اُٹھے، اچھا ان کے قصائد اور غزلیں دیکھ لو، کسی بادشاہ کی سلطنت میں اس شان و شکوہ اور دھوم دھام کے سامان موجود ہیں ؟ گویا سلطنت کا سامان سب انھی کا مال تھے کہ جس طرح چاہتے تھے اپنے کام میں لاتے تھے۔ جب وہ اپنے کلام کو پڑھتے تھے تو بادشاہ کو جو مالکِ سلطنت ہوتا تھا کچھ اُن سے زیادہ خوشی نہ ہوتی ہو گی۔ کیونکہ اُسے ان کا فکر بھی رہتا ہے، انھیں پرواہ بھی نہیں تھی۔

جس طرح کوئی زمین اپنی قابلیت کے موافق بے کچھ نہ کچھ روئیدگی کے نہیں رہ سکتی اس طرح کوئی زبان اپنے اہل زبان کی حیثیت بموجب نظم سے خالی نہیں رہ سکتی۔ ہر روئیدگی کی رنگینی اور شادابی اپنی سر زمین کی خاصیت ظاہر کرتی ہے۔

زبانوں کے سلسلہ میں ہر ایک نظم اپنی زبان اور اہلِ زبان کی شائستگی اور تہذیب علمی کے ساتھ لطافتِ طبع کے درجے دکھاتی ہے۔

زبانِ اُردو کے ظہور پر خیال کریں اور اس کی تصنیفات پر نگاہ کریں تو اس میں نثر سے پہلے نظم نظر آئے گی اور یہ عجیب بات ہے کہ ایک بچہ پہلے شعر کہے پھر باتیں کرنی سیکھے، ہاں نظم جوشِ طبع تھا، اس لئے پہلے نکل پڑا، نثر شائستگی کے بوجھ سے گرانبار تھی، اپنی ضرورت کے وقت ظہور کیا، نثر اُردو کی تصنیف 1145 ھ سے پہلے نظر نہیں آتی، البتہ نظم کی حقیقت زبانی حکایتوں اور کتابی روایتوں کی خاک چھان کر بہہ نکلتی ہے کہ جب برج بھاشا نے اپنی وسعتِ اخلاق سے عربی فارسی الفاظ کے مہمانوں کو جگہ دی تو طبیعتوں میں اس قدر روئیدگی نے بھی زور کیا، لیکن وہ صدہا سال تک دوہروں کے رنگ میں ظہور کرتی رہی یعنی فارس کی بحریں اور فارسی کے خیالات نہ آتے تھے۔

امیر خسرو نے کہ جن کی طبیعت اختراع میں اعلیٰ درجہ صنعت و ایجاد کا رکھتی تھی۔ ملکِ سخن میں برج بھاشا کی ترکیب سے ایک طلسم خانہ انشا پردازی کا کھولا۔

خالق باری جس کا اختصار آج تک بچوں کا وظیفہ ہے کئی بڑی بڑی جلدوں میں تھی، اس میں فارسی کی بحروں نے اول اثر کیا اور اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کون کون سے الفاظ مستعمل تھے، جو اب متروک ہیں، اس کے علاوہ بہت سی پہلیاں عجیب و غریب لطافتوں سے ادا کی ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فارسی کے نمک نے ہندی کے ذائقہ میں کیا لطف پیدا کیا ہے۔ مکرنی، انمل، دوسخنے وغیرہ خاص ان کے آئینہ کا جوہر ہے، ہر ایک کی مثال لکھتا ہوں کیونکہ ان سے بھی اس وقت کی زبان کا کچھ نہ کچھ پتا لگتا ہے۔

نبولی کی پہیلی

تِرور سے اک تریا اُتری اس نے بہت رُجھایا

باپ کا اس کے نام پوچھا آدھا نام بتایا

آدھا نام پتا پر پیارا بوجھ پہیلی موری

امیر خسرو یوں کہیں اپنے نام نبولی

آئینہ کی پہیلی

فارسی بولی آئینہ

ترکی سوجی پائی نا

ہندی بولتے آرسی آئے

مُنھ دیکھو جو اسے بتائے

ناخن کی پہیلی

بیسیوں کا سَر کاٹ لیا

نا مارا نہ خون کیا

لال کی پہیلی

اندھا گونگا بہرا بولے گونگا آپ کہائے

دیکھ سفیدی ہوت انگارا گونگے سے بھڑ جائے

بانس کا مندر واہ کا باشا، باشے کا وہ کھا جا

سنگ ملے تو سر پر راکھیں واہ کورا اور اجا

سی سی کر کے نام بتایا، تا میں بیٹھا ایک

اُلٹا سیدھا ہر پھر دیکھو وہی ایک کا ایک

بھید پہیلی میں کہی تو سُن لے میرے لال

عربی، ہندی، فارسی تینوں کرو خیال

دلی بلکہ ہندوستان کے اکثر شہروں میں رسم ہے کہ عام عورتیں برسات کی بہار میں گھم گڑواتی ہیں، درخت ہو تو اس میں جھولا ڈلواتی ہیں، مل مل کر جھولتی ہیں اور گیت گا کر جی خوش کرتی ہیں، ان میں شاید کوئی عورت ہو جو یہ گیت نہ گاتی ہو۔

جو پیا آون کہہ گئے اجھوں نہ آئے سوامی ہو

اے ہو آون کہہ گئے، وغیرہ۔ وغیرہ۔

یہ گیت بھی انہی امیر خسرو کا ہے اور بروا راگ میں لَے بھی انہی کی رکھی ہے، واہ کیا زبانیں تھیں کہ جو کچھ ان سے نکل گیا، عالم کو بھایا، گویا زمانے کے دل پر نقش ہو گیا۔ بنانے والوں نے ہزاروں گیت بنائے اور گانے والوں نے گائے، آج ہوئے، کل بھول گئے، چھ سو برس گزرے یہ آج تک ہیں اور ہر برسات میں ویسا ہی رنگ دے جاتے ہیں۔ اس حسنِ قبول کو خداداد نہ کہیے تو کیا کہیے۔

بڑی بڑی عورتوں کے گانے کے لئے تو ویسے گیت تھے، چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کو پیا اور سوامی کی یاد میں اس طرح گانا مناسب نہ تھا، لیکن دل کی امنگ تو وہ بھی رکھتی تھیں، اُنھیں بھی فصل بہار کی منافی تھی، ان کے لئے اور گیت رکھے تھے۔ چنانچہ ایک لڑکی گویا سُسرال میں ہے، برسات کی رُت آئی وہ جھولتی ہے اور ماں کی یاد میں گاتی ہے :

اماں میرے باوا جو بھیجو جی کہ ساون آیا - یعنی مجھے آ کر لے جائے

بیٹی تیرا باوا تو بڈھا ری کہ ساون آیا - یعنی وہ کیونکر آ سکتا ہے۔

اماں میرے بھائی کو بھیجو جی کہ ساون آیا

بیٹی تیرا بھائی تو بالا ری کہ ساون آیا - یعنی بچہ اکیلا اتنی دور کیوں کر آئے

اماں میرے ماموں کو بھیجو ری کہ ساون آیا - یعنی اس کے لئے تو وہ دونوں عذر نہیں

بیٹی تیرا ماموں تو بانکا ری کہ ساون آیا - بھلا وہ کب میری سنے گا

ذرا غور کر کے دیکھو، باوجود علم و فضل اور اعلیٰ درجہ خیالات شاعرانہ کے جب یہ لوگ پستی کی طرف جھکتے تھے تو ایسے تہہ کو پہنچتے تھے کہ زمین کی ریت تک نکال لاتے تھے۔ ان الفاظ و خیالات پر نظر کرو، کیسے نیچر میں ڈوبے ہوئے ہیں، عورتوں اور لڑکیوں کے فطری خیالات اور دلوں کے ارمانوں کو کیا اصلی طور سے ظاہر کرتے ہیں، مکرنیوں کا انھیں موجد کہنا چاہیے۔

مرنی – 1

سگری رین موہے سنگ جاگا

بھور بھئی تب بچھڑن لاگا

اس کے بچھڑے پھاٹت ہیا

اے سکھی ساجن نا سکھی دیا

مکرنی – 2

سرب سلونا سب گن نیکا

وابن سب جگ لاگے پھیکا

وا کے سر پر ہووے کون

اے سکھی ساجن نا سکھی لُون

مکرنی – 3

وہ آوے تب شادی ہوئے

اس بن دوجا اور نہ کوئے

میٹھے لاگے وا کے بول

اے سکھی ساجن، نا سکھی ڈھول

ایک کنوئیں پر چار پنہاریاں پانی بھر رہی تھیں۔ امیر خسرو کو رستہ چلتے چلتے پیاس لگی، کنویں پر جا کر ایک سے پانی مانگا، اُن میں سے ایک انھیں پہچانتی تھی، اس نے اوروں سے کہا کہ دیکھو خسرو یہی ہے۔ انھوں نے پوچھا کیا تو خسرو ہے جس کے سب گیت گاتے ہیں اور پہیلیاں اور مکرنیاں انمل سنتے ہیں، انھوں نے کہا، ہاں۔ اس پر ایک ان میں سے بولی کہ مجھے کھیر کی بات کہہ دے، دوسری نے چرخہ کا نام لیا، تیسری نے ڈھول، چوتھی نے کتے کا، اُنھوں نے کہا کہ مارے پیاس کے دم نکلا جاتا ہے پہلے پانی تو پلا دو، وہ بولیں، جب تک ہماری بات نہ کہہ دے گا نہ پلائیں گی۔ اُنھوں نے جھٹ کہا۔

کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا

آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا

لا پانی پلا

اِسی طرح کبھی کبھی ڈھکوسلا کہا کرتے تھے کہ وہ بھی انھیں کا ایجاد ہے۔

بھادوں پکی پیپلی، چو چو پڑی کپاس

بی مہترانی دل پکاؤ گی یا ننگا ہی سو رہوں

دو سخنے

گوشت کیوں نہ کھایا، ڈوم کیوں نہ گایا

گلا نہ تھا

انار کیوں نہ چکھا، وزیر کیوں نہ رکھا

دانا نہ تھا

دو سخنے

سود ا اگر راچہ مے باید، بوچے کو کیا چاہیے

دوکان

تشنہ راچہ مے باید، ملاپ کو کیا چاہیے

چاہ

فارسی اُردو

شکار بچہ مے باید کرد، قوت مغز کو کیا چاہیے

بادام

موسیقی میں ان کی طبیعت ایک بین تھی کہ بِن بجائے پڑی بکتی تھی، اس لئے دُہرپت کی جگہ قول و قلبانہ بنا کر بہت سے راگ ایجاد کئے کہ ان میں سے اکثر گیت اُن کے آج تک ہندوستان کی زن و مرد کی زبان پر ہیں، بہار راگ اور بسنت کے میلہ نے اِنہی کی طبیعت سے رنگ پڑا ہے، بین کو مختصر کر کے ستار بھی انہی نے نکالا ہے۔

لطیفہ :- سلطان جی صاحب کے ہاں ایک سیاح فقیر مہمان آئے، رات کو دسترخوان پر بیٹھے، کھانے کے بعد باتیں شروع ہوئیں، سیاح نے ایسے دفتر کھولے کہ بہت رات گئی ختم ہی نہ ہوں، سلطان جی صاحب نے کچھ انگڑائیاں کچھ جمائیاں بھی لیں، وہ سادہ لوح کسی طرح بھی نہ سمجھے، سلطان جی صاحب مہمان کی دل شکنی سمجھ کر کچھ نہ کہہ سکے۔ مجبور بیٹھے رہے، امیر خسرو بھی موجود تھے مگر بول نہ سکتے تھے کہ آدھی رات کی نوبت بجی۔ اس وقت سلطان جی نے کہا کہ خسرو یہ کیا بجا؟ عرض کی آدھی رات کی نوبت ہے، پوچھا اس میں کیا آواز آتی ہے ؟ اُنھوں نے کہا، سمجھ میں تو ایسا آتا ہے :-

نان کہ خوردی خانہ برد، نان کہ خوردی خانہ برد، خانہ برد خانہ برد، نان کہ خوردی خانہ برد، نہ کہ بدستِ تو کردم خانہ گرد، خانہ بروخانہ برد،

حرف حرف کی حرکت و سکون پر خیال کرو، ایک ایک چوٹ کو کیا پورا پورا ادا کر رہے ہیں، اور نہ بدست تو کردم خانہ گرد کو دیکھو، اس نے کیا کام کیا۔

نقل : ایک دن کسی کوچہ میں سے گزر ہوا، دھُنیا ایک دوکان میں روئی دھُنک رہا تھا، کسی نے کہا کہ جس دھُنیئے کو دیکھو ایک ہی انداز پر روئی دھُنکتا ہے۔ سب ایک ہی اُستاد کے شاگرد ہیں، کوئی بولا کہ قدرتی اُستاد نے سب کو ایک ہی انداز پر سکھایا ہے، آپ نے کہا کہ سکھایا ہے اور ایک حرکت میں بھی تال کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ کوئی بولا کہ لفظوں میں کیونکر لا سکیں۔ فرمایا :

در پئے جاناں جاں ہم رفت، جاں ہم رفت، جاں ہم رفت، رفت رفت جاں ہم رفت، ایں ہم رفت و آں ہم رفت، آنہم فرت آنہم رفت، اینہم آنہم اینہم آنہم رفت، رفتن، رفتن، رفتن، دہ ذہ، رفتن دہ، رف، رفتن دہ۔

نقل : محلہ کے سرے پر ایک بڑھیا ساقن کی دکان تھی۔ چمو (بکسر اول، واو مجہول) اس کا نام تھا۔

شہر کے بیہودہ لوگ وہاں بھنگ چرس پیا کرتے تھے، جب یہ دربار سے پھر کر آتے یا تفریحاً گھر سے نکلتے تو وہ بھی سلام کرتی، کبھی کبھی حقہ بھر کر سامنے لے کھڑی ہوتی۔ یہ بھی اس کی دلشکنی کا خیال کر کے دو گھونٹ لے لیا کرتے،، ایک دن اُس نے کہا بلائیں لوں، ہزاروں غزلیں، گیت، راگنی بناتے ہو، کتابیں لکھتے ہو، کوئی چیز لونڈی کے نام پر بھی بنا دو، انھوں نے کہا بی چمو بہت اچھا، کئی دن کے بعد اُس نے پھر کہا کہ بھٹیاری کے لڑکے لئے خالق باری لکھ دی۔ ذرا لونڈی کے نام پر بھی لکھ دو گے تو کیا ہو گا۔ آپ کے صدقے سے ہمارا نام بھی رہ جائے گا۔ اس کے بار بار کہنے سے ایک دن خیال آ گیا۔ کہا لو بھی چمو سنو (بادشاہ کے ہاں اُس زمانہ میں چوپہری نوبت بجا کرتی تھی) :

اوروں کی چوپہری باجے چمو کی اٹھ پہری

باہر کا کوئی آئے ناہیں آئیں سارے شہری

صاف صفوف کر آ گئے راکھے جس میں ناہیں تُوسل

اوروں کے جہاں سینک سماوے چمو کے وہاں موسل

یعنی یہ بادشاہوں سے بھی بڑی ہیں۔ جنگلی گنواروں کا کام نہیں۔ سفید پوش آتے ہیں۔ پیالہ بھنگ صاف مصفیٰ حاضر کرتی ہے جس میں تس تِنکا نہ ہو۔ بھنگڑ فخریہ کہا کرتے ہیں کہ وہ ایسی بھنگ پیتا ہے کہ جس میں گاڑھے پن کے سبب سے سینہ تک کھڑی رہے، آپ مبالغہ کرتے ہیں کہ وہ ایسی بھنگ بناتی ہیں کہ جس میں موسل کھڑا رہے۔ خیر ان کی بدولت چمو کا نام بھی رہ گیا۔

حق پوچھو تو جس طرح ہر جاندار کی عمر ہے اسی طرح کتاب کی بھی عمر ہے مثلاً شاہنامہ کو ۹ سو برس ہوئے۔ سکندر نامہ کو ۷ سو برس سمجھو۔ گلستاں بوستاں کو ۶ سو برس کہو۔ زلیخا کی عمر قریب ۳ سو کے ہوئی مگر اب تک سب جوان ہیں، اُردو میں باغ و بہار، بدر منیر وغیرہ جوان ہیں، فسانہ عجائب جاں بلب ہو گیا۔ بہت کتابیں اول شہرت پاتی ہیں پھر گمنام ہو جاتی ہیں، یہ گویا بچے ہی تھے کہ مر گئے۔ بہتیری تصنیف ہوئی ہیں اور چھپتی ہیں، مگر کوئی نہیں پوچھتا یہ بچے مرے ہوئے پیدا ہوئے ہیں، بعض کتابوں کی عمریں میعاد معلوم پر ٹھہری ہوئی ہیں، وہ مدارس سرکاری کی تصنیفیں ہیں کیونکہ جب تک تعلیم میں داخل ہیں تب تک چھپتی ہیں اور خواہ مخواہ بکتی ہیں۔ لوگ پڑھتے ہیں۔ جب تعلیم سے خارج ہو گئیں مر گئیں کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔

قبولِ خاطر و لطفِ سخن خداداد است

خدا یہ نعمت نصیب کرے

غرض اس جوشِ طبع اور ہنگامہ ایجاد میں ایک تازہ ایجاد ہوا جس میں ہمارے لئے تین باتیں قابلِ لحاظ ہیں :-

۱) مضامین عاشقانہ سے وہ سلسلہ اشعار کا ہمارے ہاتھ آیا جسے غزل کہتے ہیں۔ وہی قافیے یا ردیف اور قافیے دونوں کی پابندی، اسی طرح اول مطلع یا کئی مطلع، پھر چند شعر، اخیر میں مقطع اور اس میں تخلص۔

۲) عروضِ فارسی نے پہلا قدم ہندوستان میں رکھا۔

۳) فارسی اور بھاشا کو نون مرچ کی طرح اِس انداز سے ملایا ہے کہ زبان پر چٹخارا دیتی ہے۔ اس میں یہ بات سب سے زیادہ قابلِ لحاظ ہے کہ اُنھوں نے بنیاد عشق کی عورت ہی کی طرف سے قائم کی تھی جو کہ خاصہ نظم ہندی کا ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس تعشق کا انقلاب کس وقت ہوا؟

غزل مذکور یہ ہے :

زحالِ مسکیں مکن تغافل، درائے نیناں بنائے بتیاں

کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں، نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

شانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چو عمر کوتاہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں، تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یکایک از دل دوچشم جادو بصد فریبم ببُرد تسکیں

کِسے پڑی ہے جو جا سُناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

چو شمع سوزاں چوذرہ حیراں ز مہرآں مہ بگشتم آخر

نہ نیند نیناں، نہ انگ چینا، نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں

بحق روزِ وصال دلبر کہ دادِ مارا فریب خرد

سپیت منکے درائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کے کھتیاں

ابتدائے ایجاد میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ زمانہ مبتدیوں کا اصلاح دینے والا ہے پھر تراشیں دے کر اعلیٰ درجہ خوبی و خوش اسلوبی پر پہنچا لیتا ہے مگر اس وقت اس طرف کسی اور نے ایسی توجہ نہ کی جس سے اس طرز کا رواج جاری ہو جاتا البتہ ملک محمد جائسی نے مثنوی پدماوت کے علاوہ دوہرے اور گیت بھی لکھے۔ اور وہ ایسے اعلیٰ رتبہ کے ہیں کہ ڈاکٹر گلگرسٹ صاحب کی تصنیف میں نہایت مدد کرتے ہیں، تعجب یہ ہے کہ فارسی کی بحروں میں کوئی شعر اس کا نہیں۔ دکن میں ایک سعدی گذرے ہیں، اُن کا فقط اتنا حال معلوم ہے کہ اپنے تئیں ہندوستان کا سعدی شیرازی سمجھتے تھے، اور تعجب ہے کہ مرزا رفیع سودا نے اپنے تذکرہ میں اُن کے اشعار مندرجہ ذیل کو شیخ سعدی شیرازی ہی کے نام پر لکھا ہے۔

قشقہ چو دیدم بر رخت گفتم کہ یہ کاویت ہے

گفتا کہ در ہو باد رہے اس شہر کی یہ ریت ہے

ہمنا نمہن کو دل دیا، تم دل لیا اور دُکھ دیا

ہم یہ کیا تم وہ کیا، ایسی بھلی یہ پیت ہے

سعدی کہ کفتہ ریختہ، در ریختہ، دُر ریختہ

شیر و شکر ہم ریختہ، ہم ریختہ ہم گیت ہے

کبیر اور تلسی داس وغیرہ کے دوہرے عالم میں زبان زد ہیں مگر وہ فقط اتنی سند کے لئے کارآمد ہیں کہ اس عہد میں فارسی الفاظ کا دخل ہندوؤں کی زبانوں پر بھی ہو گیا تھا، اُنھیں اس نظم سے علاقہ نہیں جو فارسی سے آ کر اُردو کے لباس میں ظاہر ہوئی اور ملکی مالک کو بے دخل کر کے گوشہ میں بٹھا دیا۔

حامد کوئ شخص ہوئے ہیں، اِن کا زمانہ معلوم نہیں، کہتے ہیں کہ حامد باری انھیں کی تصنیف ہے، اُن کی فقط سات شعر کی ایک غزل دیکھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کوئی پنجابی بزرگ ہیں۔ اس میں سے مطلع پر قناعت کرتا ہوں :

عزمِ سفر چوں کر دی ساجن نینوں نیند نہ آئی جی

قدرِ وصالت ندا نستم تم بن برہ ستائی جی

اگر یہی شعر ہیں تو جب سے اب تک بے شمار شاعر پنجاب میں نکل آئیں گے۔ یہاں کی شاعری اب تک انھیں بتیوں میں جاری ہے، لیکن یہ شاعر اور ان کی شاعری وہ نہیں ہے جس سے ہم بحث کرتے ہیں۔ احمد گجرأتی ہم عہد و ہم وطن دلی کے ہیں، وہ فرماتے ہیں :

گر بیضہ زاغے کسے درز یہ سیمرغے نہد

از اصل خود ناید بروں آخر گلیلا ہوئے پر

گر طفلکے بازی گرے خوانندہ و عالم شود

اصلیکہ وارد کے رود آخر زنبورا ہوئے پر

گر بچہ شیرے کسے باشیر روبہ پرورد

مروی کہ وارد کے رد و آخر بگیلا ہوئے پر

سیوا ایک مصنف دکن میں گزرا ہے، جس نے روضۃ الشہداء کا دکنی زبان میں ترجمہ کیا، مرثیے اس کے اب وہاں کے امام باڑوں میں پڑھے جاتے ہیں اور گمان غالب ہے کہ اس طرح کے شاعر اِن عہدوں میں بہت ہوں گے مگر ایسی شاعری کو علمی شاعری نہیں کہہ سکتے۔

نواز نام ایک مصنف نے فرخ سیر کے عہد میں شکنتلا کا ترجمہ بھاشا میں لکھا، اس عہد میں نظمِ اُردو کے صنف کا یہی سبب ہو گا کہ جو ذی استعداد اُردو کے اہلِ زبان ہوتے تھے وہ اُردو کی شاعری کو فخر نہ سمجھتے تھے۔ کچھ کہنا ہوتا تو فارسی میں کہتے تھے۔ البتہ عوام الناس موزوں طبع دل کی ہوس پوری کرنے کو جو منھ میں آتا تھا کہتے جاتے تھے، جو اہلِ ولایت شاعر ہوتے تھے، وہ فارسی شعر کہتے۔ اُردو اُنھیں آتی نہ تھی، کہتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا گویا تمسخر کرتے ہیں، چنانچہ مرزا معز موسوی خاں فطرت کہ زبدہ شعرائے ایران اور عمدہ شعرائے عالمگیری سے تھے اور بعد اُن کے قزلباش خاں امید کے متفرق اشعار دیکھے، معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ اُس وقت ٹوٹی پھوٹی زبان تھی اسے پورا ادا نہ کر سکتے، چنانچہ فرماتے تھے :

از زلفِ سیاہ تو بدل دوم پری ہے

در خانہ آئینہ کتا جوم پری ہے

قزلباش نہاں اُمید باوجودیکہ فارسی میں بڑے نامور ہیں اور اہل ہند کے ساتھ اُن کے جلسوں کی گرمجوشیاں بھی مشہور ہیں مگر اُردو میں جو اظہارِ کمال کیا ہے وہ یہ ہے :

بامن کی بیٹی آج مری انکھ موں پری

غصہ کیا و گالی دیا اور دگر لری

اس بات میں سب کا اتفاق ہے کہ نظم موجودہ نے دکن سے ظہور کیا، چنانچہ میر تقی میر نے بھی ایک غزل میں شاعرانہ انداز سے اشارہ کیا ہے :

خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے

معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا

اور قائم ان کے ہم عصر نے صاف کہہ دیا ہے :

قائم میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ

اک بات لچر سی بزبانِ دکنی تھی

بہرحال عالمگیر کے عہد میں دلی نے اس نظم کا چراغ روشن کیا جو محمد شاہ کے عہد میں آسمان پر ستارہ ہو کر چمکا اور شاہ عالم کے عہد میں آفتاب (آفتاب شاہ عالم بادشاہ کا تخلص تھا۔ وہ خود بڑا مشاق شاعر ہے جس کے چار دیوان اُردو میں موجود ہیں ) ہو کر اوج پر آیا۔

نظم اُردو کے آغاز میں یہ امر قابل اظہار ہے کہ سنسکرت میں ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنی ہیں۔ اسی واسطے نظمِ اُردو اور برج بھاشا دونوں کی بنیاد ذومعنی الفاظ اور ایہام پر ہوتی تھی، فارسی میں یہ صنعت ہے گر کم، اُردو میں پہلے پہلے شعر کی بنا اسی پر رکھی گئی اور دورِ اول کے شعراء میں برابر وہی قانون جاری رہا اور اس عہد کے چند اشعار بھی نمونہ کے طور پر لکھتا ہوں :

لام نستعلیق کا ہے اُس بُتِ خوش خط کی زُلف

ہم تو کافر ہوں اگر بندے نہ ہوں اسلام کے

کیوں نہ ہو ہم سے وہ سجن باغی

قد ہو جس کا نہال کی مانند

تو جو دریا کے پار جلتا ہے

دل مرا وار وار جاتا ہے

تم دیکھو یا نہ دیکھو ہم کو سلام کرنا

یہ تو قدیم ہی سے سر پر ہمارے "کر" ہے

(کر ہندی میں محصول کو سنسکرت میں ہاتھ کو کہتے ہیں، سَر کے بالوں کی جڑوں میں جو خشکی ہو جائے اسے بھی کہتے ہیں۔)

نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا دیوے

کہ آخر بدنما لگتا ہے دیکھو چاند کو گہنا

سج دکھا بانکی نہیں چھوڑے گا میرا نقد دل

آج وہ افغاں پسر آتا یہی ہے دل میں ٹھان

نہ دیوے لے کے دل وہ جعدہ مشکیں

اگرباور نہیں تو مانگ دیکھو

شاہِ حاتم نے بڑی کوشش کر کے اِن رنگ آمیزیوں سے اُردو کو پاک کیا، چنانچہ اُن کے حال میں معلوم ہو گا۔

سودا کے عہد میں بھی اس مادہ فاسد کا بقیہ چلا آتا تھا، چنانچہ اُنھوں نے بھی اک قصیدہ میں اُن بزرگوں کی شکایت کی ہے جن کے شمار میں سے ایک شعر یہ ہے :

مونہو پرورشِ شانہ تو پھر ہے موسل

رام پور کی ہو کٹاری تو کہیں سیتا پھل

مگر لطف یہ ہے کہ خود بھی موقع پاتے تھے تو کہیں نہ کہیں کہہ جاتے تھے، چنانچہ فرمایا ہے :

حکاک کا پسر بھی مسیحا سے کم نہیں

فیروزہ ہوئے مژدہ تو دیتا ہے وہ جِلا

اگرچہ وہ انداز پہلے کی نسبت بالکل نہیں رہے پھر بھی جس قدر ہیں وہ ایسے زبان پر چڑھے ہوئے ہیں کہ جن مضامین کے اَدا کرنے کی ہمیں آج کل ضرورت پڑتی ہے اس کے لئے خلل انداز ہوتے ہیں، یہ بات بھی بھولنی نہ چاہیے کہ جس طرح ایک نوجوان مرغ اپنے پَر جھاڑ کر نئے پر نکالتا ہے، اسی طرح ہماری زبان بھی اپنے الفاظ کو بدلتی چلی آتی ہے، چنانچہ بہت سے الفاظ ہیں، جن کا دور بدور شعراء کے کلام میں اشارہ کیا گیا ہے۔

یہ اظہار قابلِ افسوس ہے کہ ہماری شاعری چند معمولی مطالب کے پھندوں میں پھنس گئی ہے، یعنی مضامینِ عاشقانہ، مے خواری، مستانہ، بے گل و گلزار و ہمی رنگ و بُو کا پیدا کرنا، ہجر کی مصیبت کا رونا، وصلِ موہوم پر خوش ہونا، دنیا سے بیزاری، اسی میں فلک کی جفا کاری اور غضب یہ ہے کہ اگر کوئی اصلی ماجرا بیان کرنا چاہتے ہیں تو بھی خیالی استعاروں میں ادا کرتے ہیں، نتیجہ جس کا یہ کہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ میرے دوستو ! دیکھتا ہوں کہ علوم و فنون کا عجائب خانہ کھلا ہے اور ہر قوم اپنے اپنے فنِ انشاء کی دستکاریاں بھی سجائے ہوئے ہے۔ کیا نظر نہیں آتا، ہماری زبان کس درجہ پر کھڑی ہے ؟ ہاں صاف نظر آتا ہے کہ پا انداز میں پڑی ہے۔

ہمارے بزرگوں میں سے دلی میں اول مرزا رفیع سودا پھر شیخ ابراہیم ذوق نے زبان کی پاکیزگی، الفاظ کی شستگی اور ترکیب کی چستی سے کلام میں خوب زور پیدا کیا، میر تقی میر اور خواجہ میر درد نے زار حالی افسردہ دلی، دنیا سے بیزاری کے مضامین کو خوب ادا کیا۔ غالب نے بعض مواقع پر ان کی عمدہ پیروی کی مگر معنی آفرینی کے عاشق تھے اور زیادہ تر توجہ اُن کی فارسی پر رہی، اس لئے اُردو میں غالباً صاف اشعار کی تعداد سو (۱۰۰) دو سو (۲۰۰) شعر سے آگے نہ نکلی۔ جرأت نے عاشق و معشوق کے معاملات اور دونوں کے دلی خیالات کو نہایت خوبی اور شوخی سے بیان کیا۔ مومن خان نے باوجود مشکل پسندی کے پیروی کی۔ لکھنؤ میں شیخ امام بخش ناسخ اور خواجہ حیدر علی آتش، رند، صبا، وزیر وغیرہ نے شاعری کا حق ادا کیا مگر پھر خیال کرو کہ فقط زبانی طوطا مینا بنانے سے حاصِل کیا؟ جو شاعری ہمارا ہر قسم کا مطلب اور ہمارے دل کا ہر ایک ارمان پورا نہ نکال سکے گویا ایک ٹوٹا قلم ہے جس سے پورا حرف نہ نکل سکے۔ دارالخلافہ دہلی جو کہ انشاء اور اُردو شاعری کے لئے دارالضرب تھا، وہاں ذوق اور غالب نے رسمی شاعری پر خاتمہ کیا، لکھنؤ میں ناسخ اور آتش سے شروع ہو کر رند، وزیر، صبا تک سلسلہ جاری رہا، ایک زمانہ میں مثل مشہور تھی کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو، اور بگڑا گویا مرثیہ خوان، لیکن لکھنؤ میں ان دونوں شاخوں کے صاحبِ کمال بھی ایسے ہوئے کہ اصولوں کو رونق دے دی، اسی اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ میر انیس اور مرزا دبیر خاتمہ شعرائے اُردو کا ہیں اور چونکہ اِس فن کے صاحبِ کمال کا پیدا ہونا نہایت درجہ کی آسودگی اور زمانہ کی قدردانی اور متعدد سامانوں پر منحصر ہے اور اب زمانہ کا رنگ اس کے برخلاف ہے، اس لئے ہندوستان کو اس شاعری کی ترقی اور ایسے شعراء کے پیدا ہونے سے بالکل مایوس ہو جانا چاہیے، البتہ کوئی نیا فیشن نکلے، پھر اُس میں خدا جانے کیا کیا کمال ہوں، اور کون کون اہلِ کمال ہوں۔

خاتمہ کلام میں عقل کے نجومی سے سوال ہوا کہ اس شاعری کا ستارہ جو نحوستِ زوال میں آ گیا ہے، کبھی اوجِ اقبال پر بھی طلوع کرے گا یا نہیں ؟ جواب ملا کہ نہیں۔ پوچھا گیا کہ سبب؟ جواب ملا کہ حکامِ وقت کی یہ زبان نہیں، نہ اُن کے کارآمد ہے۔ اسی لئے وہ اس کے قدردان نہیں نہ وہ اسے جانتے ہیں، نہ ان کے جاننے کو کچھ فخر جانتے ہیں، وہاں سے ہمارے شعراء کو جھوٹے خوشامدی کا خطاب ملا ہوا ہے۔ اچھا یا قسمت یا نصیب، جس لوگوں کے کلام ہماری زبان کے لئے سند سمجھے جانے تھے، اُن کی تو یہ عزت ہوئی، اب اس نیم جان مُردہ کے رونے والے چند بڈھے رہے جن کی درد ناک آوازیں کبھی کبھی آہِ سرد کے سُروں میں بلند ہو کر سینوں میں رہ جاتی ہیں، کبھی وہ دل آسودہ ہوتے ہیں تو ایک مشاعرہ کر کے مل بیٹھتے ہیں اور آپس ہی میں ایک دوسرے کی تعریفیں کر کے جی خوش کر لیتے ہیں، شاعر غریب اپنے بزرگوں کی قبریں قائم رکھنے کو اتنی ہی تعریف پر قناعت کر لیں مگر پیٹ کو کیا کریں ؟ یہ دوزخ تو بہت سی تعریف سے بھی نہیں بھرتا۔

پھر سوال ہوا کہ کوئی ایسی تدبیر ہے، جس سے اس کے دن پھریں، اور پھر ہماری نظم کا باغ لہلہاتا نظر آئے، جواب ملا کہ ہاں۔ ہمت و تدبیر کو خدا نے بڑی برکت دی ہے۔ صورت یہی ہے کہ ایشیا میں ایسے کمالوں کی رونق حکام کی توجہ سے ہوتی ہے۔ شاعروں کو چاہیے کہ اُسے حاکموں کے کارآمد یا اُن کی پسند کے قابل بنائیں۔ ایسا کریں گے تو شعر کہنے والوں کو کچھ فائدہ ہو گا، اور جس قدر فائدہ ہو گا، اُسی قدر چرچا زیادہ ہو گا۔ اسی قدر ذہن فکر و جودت کریں گے اور دلچسپ ایجاد اور خوش نما اختراع کر نکالیں گے، اسی کو ترقی کہتے ہیں۔

یہ تو تم نے دیکھ لیا کہ اُردو میں جو سرمایہ انشاء پردازی کا ہے، فارسی کی بدولت ہے، قدمائے فارس ہر قسم کے مضامین سے لطف اُٹھاتے تھے، متاخرین فقط غزل میں منحصر ہو گئے۔ ذی استعداد قصیدے بھی کہتے رہے، اُردو والوں نے بھی آسان کام سمجھ کر اور عوام پسندی کو غرض ٹھہرا کر حُسن و عشق وغیرہ کے مضامین کو لیا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جو کچھ کیا، بہت خوب کیا، لیکن وہ مضمون اس قدر مستعمل ہو گئے کہ سُنتے سُنتے کان تھک گئے ہیں، وہی مقرری باتیں ہیں، کہیں ہم لفظوں کو پس و پیش کرتے ہیں کہیں ادل بدل کرتے ہیں اور کہے جاتے ہیں، گویا کھائے ہوئے بلکہ اوروں کے چبائے ہوئے نوالے ہیں، اُنھیں کو چباتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں، خیال کرو اس میں کیا مزہ رہا، حسن و عشق سبحان اللہ، بہت خوب، لیکن تابہ کے ؟ حور ہو یا پری، گلے کا ہار ہو جائے تو اجیرن ہو جاتی ہے۔ حُسن و عشق سے کہاں تک جی نہ گھبرائے اور اب تو وہ بھی سو برس کی بڑھیا ہو گئی۔

ایک دشواری یہ بھی ہے کہ اِن خیالات کے ادا کرنے کے لئے ہمارے بزرگ الفاظ اور معانی اور استعاروں اور تشبیہوں کے ذخیرے تیار کر گئے ہیں اور وہ اس قدر رواں ہو گئے ہیں کہ ہر شخص تھوڑے فکر سے کچھ نہ کچھ کر لیتا ہے اور اگر خیال نظم کرنا چاہے تو ویسا سامان نہیں، البتہ ذی استعداد مشاق چاہیں تو کر بھی سکتے ہیں، لیکن کم بخت حسن و عشق کے مضمون، اُس کے خط و خال اور بہار و گلزار کے الفاظ ان کی زبان و وہاں میں رچے ہوئے ہیں۔ اگر کچھ کہنا چاہیں تو اول اُسے بھلائیں پھر اُس کے مناسب مقام ویسے ہی نرالے استعارے، نئی تشبیہیں، انوکھی ترکیبیں اور لفظوں کی عمدہ تراشیں پیدا کریں، اور بڑی عرق ریزی اور جانکاہی کا کام ہے، بے ہمتی جو ہماری قوم پر حاکمِ باختیار بنی ہوئی ہے اسے اس سے زیادہ روکنے کا موقع کہاں مل سکتا ہے۔

اس اتفاقی معاملہ نے اور تو جو کیا سو کیا، بڑی قباحت یہ پیدا کی کہ اربابِ زمانہ نے متفق اللفظ کہہ دیا کہ اُردو نظم مضامینِ عاشقانہ ہی کہہ سکتی ہے۔ اسے ہر ایک مضمون کے ادا کرنے کی طاقت اور لیاقت بالکل نہیں اور یہ ایک بڑا داغ ہے جو ہماری قومی زبان کے دامن پر لگا ہے، سوچتا ہوں کہ اُسے کون دھوئے اور کیوں کر دھوئے، ہاں یہ کام ہمارے نوجوانوں کا ہے جو کشورِ علم میں مشرقی اور مغربی دونوں دریاؤں کے کناروں پر قابض ہو گئے ہیں۔ اُن کی ہمت آبیاری کرے گی، دونوں کناروں سے پانی لائے گی اور اس داغ کو دھوئے گی، بلکہ قوم کے دامن کو موتیوں سے بھر دے گی۔