Jump to content

آب حیات/نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسد اللہ خاں غالب

From Wikisource

مرزا صاحب کو اصلی شوق فارسی کی نظم و نثر کا تھا اور اسی کمال کو اپنا فخر سمجھتے تھے، لیکن چونکہ تصانیف ان کی اردو میں بھی چھپی ہیں، اور جس طرح امراؤ رؤسائے اکبر آباد میں علو خاندان سے نامی اور میرزائے فارسی ہیں اُسی طرح اُردوئے معلی کے مالک ہیں۔ اس لئے واجب ہوا کہ ان کا ذکر اس تذکرہ میں ضرور کیا جائے۔ نام اسد اللہ تھا۔ پہلے اسدؔ تخلص کرتے تھے، جھجر میں کوئی فرومایہ سا شخص اسدؔ تخلص کرتا تھا، ایک دن اُس کا مطلع کسی نے پڑھا :

اسدؔ تم نے بنائی یہ غزل خوب

ارے او شیر رحمت ہے خدا کی​

سنتے ہی اس تخلص سے جی بیزار ہو گیا، کیونکہ ان کا ایک یہ بھی قاعدہ (دیوان فارسی میں ۲۰، ۲۵ شعر کا ایک قطعہ لکھا ہے، بعض اشخاص کا قول ہے کہ ذوق کی طرف چشمک ہے، غرض کہ اس میں کا ایک شعر ہے۔

راست میگویم من و از راست سرنتواں کشیہ

ہرچہ در گفتار فخر تست آں ننگِ من است​

تھا کہ عوام الناس کے ساتھ مشترک حال ہونے کو نہایت مکروہ سمجھتے تھے، چنانچہ ۱۳۴۵ھ و ۱۸۲۸ء میں اسد اللہ الغالب کی رعایت سے غالبؔ تخلص اختیار کیا۔ لیکن جن غزلوں میں اسدؔ تخلص تھا اُنھیں اُسی طرح رہنے دیا۔ خاندان کا سلسلہ افراسیاب بادشاہِ توران سے ملتا ہے، جب تورانیوں کا چراغ کیانیوں کی ہوائے اقبال سے گل ہوا تو غریب خانہ برباد جنگلوں پہاڑوں میں چلے گئے، مگر جوہر کی کشش نے تلوار ہاتھ سے نہ چھوڑی۔ سپہ گری ہمت کی بدولت روٹی پیدا کرنے لگی۔ سینکڑوں برس کے بعد پھر اقبال ادھر جھکا اور تلوار سے تاج نصیب ہوا چنانچہ سلجوقی خاندان کی بنیاد انھیں میں قائم ہو گئی مگر اقبال کا جھکنا جھوکا ہوا کا ہے، کئی پشتوں کے بعد اُس نے پھر رُخ پلٹا، اور سمرقند میں جس طرح اور شرفاء تھے اسی طرح سلجوقی شہزادوں کو بھی گھروں میں بٹھا دیا۔

مرزا صاحب کے دادا گھر چھوڑ کر نکلے، نشاہ عالم کا زمانہ تھا کہ دہلی میں آئے۔ یہاں بھی سلطنت میں کچھ نہ رہا تھا، صرف پچاس گھوڑے اور نقارہ و نشان سے شاہی دربار میں عزت پائی اور اپنی لیاقت اور خاندان کے نام سے پہاسو کا ایک پرگنہ سیر حاصل ذات اور رسالے کی تنخواہ میں لیا، شاہ عالم کے بعد طوائف الملوکی کا ہنگامہ گرم ہوا، وہ بھی نہ رہا، اُن کے والد عبد اللہ بیگ خاں لکھنو جا کر نواب آصف الدولہ مرحوم کے دربار میں پہنچے، چند روز بعد حیدر آباد میں جا کر نواب نظام علی خان بہادر کی سرکار میں تین سو سوار کی جمعیت سے ملازم رہے، کئی برس بعد ایک خانہ جنگی کے بکھیڑے میں یہ صورت بھی بگڑی، وہاں سے گھر آئے اور الور میں راجہ بختاور سنگھ کی ملازمت اختیار کی، یہاں کسی لڑائی میں مارے گئے۔ اُس وقت مرزا کی پانچ برس کی عمر تھی۔

نصر اللہ بیگ خاں حقیقی چچا مرہٹوں کی طرف سے اکبر آباد کے صوبیدار تھے، انھوں نے در یتیم کو دامن میں لے لیا۔ ۱۸۰۶؁ء میں جرنیل لیک صاحب کا عمل ہوا تو صوبہ داری کمشنری ہو گئی۔ ان کے چچا کو سواروں کی بھرتی کا حکم ہوا اور چار سو سوار کے افسر ہوئے۔ سترہ سو روپیہ مہینہ ذات کا اور لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سال کی جاگیر سونگ سون کے پرگنہ پرحین حیات مقرر ہو گئی۔

مرزا چچا کے سایہ میں پرورش پاتے تھے۔ مگر اتفاق یہ کہ مرگِ ناگہانی میں وہ مر گئے۔ رسالہ برطرف ہو گیا۔ جاگیر ضبط ہو گئی، بزرگوں نے لاکھوں روپیہ کی جائداد چھوڑی تھی، قسمت سے کس کا زور چل سکتا ہے۔ وہ امیرزادہ جو شاہانہ دل و دماغ لے کر آیا تھا، اُسے ملک سخن کی حکومت اور مضامین کی دولت پر قناعت کر کے غریبانہ حال سے زندگی بسر کرنی پڑی۔ بہت تدبیریں اور وسیلے درمیان آئے مگر سب کھیل بن بن کر بگڑ گئے، چنانچہ اخیر (اصل حال یہ ہے کہ جب مرزا نے اپنا دعویٰ کلکتہ میں پیش کیا تو سرکار نے اسکا فیصلہ سرجان مالکم صاحب گورنر بمبئی کے سپرد کیا۔ کیونکہ جب جاگیروں کی سندیں لکھی گئی تھیں تو لارڈ لیک صاحب کمانڈر انچیف ہندوستان کے سکریٹری تھے اور انھیں کے دستخط سے اسناد جاری ہوئے تھے۔جب ان کے پاس یہ مقدمہ اور اس کے کاغذات پہنچے تو انھوں نے لکھا کہ مدعی غلط کہتا ہے۔ نواب احمد بخش خاں ہمارا قدیمی دوست تھا اور بڑا راستباز تھا۔ اس پر یہ اتہام ضد سے کیا گیا ہے۔ ہم نے پانچہزار روپے سالانہ لکھا تھا جس میں سے ۳ ہزار مدعی اور اس کے متوسیلین کیلئے تھے اور دو ہزار خواجہ حاجی اور اسکے وارثوں کے نام تھے۔ پھر مرزا صاحب نے ولایت میں مرافعہ کیا وہاں بھی کچھ نہوا بموجب تحقیق نواب ضیاء الدین خان بہادر دام ظلہم العالی کے تحریر ہوا۔)

میں کسی دوست نے انھیں لکھا کہ نظام دکن کے لئے قصیدہ کہہ کر فلاں ذریعہ سے بھیجو، اُس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں، ۵ برس کا تھا کہ میرا باپ مرا، ۹ برس کا تھا کہ چچا مرا، اس کی جاگیر کے عوض میرے اور میرے شرکائے حقیقی کے واسطے شامل جاگیر نواب احمد بخش خاں دس ہزار روپیہ سال مقرر ہوئے۔ انھوں نے نہ دیئے، مگر تین ہزار روپیہ سال ان میں سے خاص میری ذات کا حصہ ساڑھے سات سو روپیہ سال فقط میں نے سرکار انگریزی میں غبن ظاہر کیا، کولبرک صاحب بہادر رزیڈنٹ دہلی اور استرلنگ صاحب بہادر سکرتر گورنمنٹ کلکتہ متفق ہوئے، میرا حق دلانے پر رزیڈنٹ معزول ہو گئے، سکرتر گورنمنٹ بمرگ ناگاہ مر گئے، بعد ایک زمانہ کے بادشاہ دہلی نے پچاس روپیہ مہینہ مقرر کیا، ان کے ولی عہد اس تقرر کے دو برس بعد مر گئے۔ واجد علی شاہ اودھ کی سرکار سے بہ صلہ مدح گستری ۵۰۰ روپیہ سال مقرر ہوئے، وہ بھی دو برس سے زیادہ نہ جئے، یعنی اگرچہ اب تک جیتے ہیں مگر سلطنت جاتی رہی اور تباہی سلطنت دو ہی برس میں ہوئی۔ دلی کی سلطنت کچھ سخت جان تھی، ۷ برس مجھ کو روٹی دے کر بگڑی، ایسے طالع مربی کش اور محسن سوز کہاں پیدا ہوتے ہیں، اب جو میں والی دکن کی طرف رجوع کرو، یاد رہے کہ متوسط یا مر جائے گا یا معزول ہو جائے گا اور اگر یہ دونوں امر واقع نہ ہوئے تو کوشش اس کی ضائع ہو جائے گی۔ والی شہر مجھ کو کچھ نہ دے گا اور احیاناً اگر اُس نے سلوک کیا تو ریاست خاک میں مل جائے گی۔ ملک میں گدھے کے ہل پھر جائیں گے۔

غرض کہ نواب احمد بخش خاں بہادر کی تقسیم سے مرزائے مرحوم نالاں ہو کر ۱۸۳۰؁ء میں کلکتہ گئے اور گورنر جنرل سے ملنا چاہا۔ وہاں دفتر دیکھا گیا، اس میں سے ایسا کچھ معلوم ہوا کہ اعزازِ خاندانی کے ساتھ ملازمت ہو جائے اور ۷ پارچہ خلعت، معہ رقم جیفہ، مرصع مالائے مروارید ریاست دودمانی رعایت سے مقرر ہوا۔

غرض مرزا کلکتہ سے ناکام پھرے اور ایام جوانی ابھی پورے نہ ہوئے تھے کہ بزرگوں کا سرمایہ تمام کر کے دلّی میں آئے، یہاں اگرچہ گزر اُن کا امیرانہ شان سے تھا، اور امیروں سے امیرانہ ملاقات تھی، مگر اپنے علو حوصلہ اور بلند نظری کے ہاتھوں تنگ رہتے تھے، پھر بھی طبیعت ایسی شگفتہ پائی تھی کہ ان وقتوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ہمیشہ ہنس کھیل کر غم غلط کر دیتے تھے۔ کیا خوب فرمایا ہے :

مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو

یک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے​

جب دلی تباہ ہوئی تو زیادہ تر مصیبت پڑی، ادھر قلعہ کی تنخواہ جاتی رہی، اُدھر پنشن بند ہو گئی اور انھیں رام پور جانا پڑا۔ نواب صاحب سے ۲۰، ۲۵ برس کا تعارف تھا یعنی ۱۸۵۵؁ء میں ان کے شاگرد ہوئے تھے اور ناظمؔ تخلص قرار پایا تھا، وہ گاہے گاہے غزل بھیج دیتے تھے کبھی روپیہ بھی آتا تھا۔اس وقت قلعہ کی تنخواہ جاری، سرکاری پنشن کھلی ہوئی تھی، ان کی عنایت فتوحِ غیبی گنی جاتی تھی۔ جب دلی کی صورت بگڑی تو زندگی کا مدار اس پر ہو گیا، نواب صاحب نے ۱۸۵۹؁ء سے سو روپیہ مہینہ کر دیا اور انھیں بڑی تاکید سے بلایا، یہ گئے تو تعظیم خاندانی کے ساتھ دوستانہ و شاگردانہ بغل گیر ہو کر ملاقات کی اور جب تک رکھا کمال عزت کے ساتھ رکھا۔ بلکہ سو روپیہ مہینہ ضیافت کا زیادہ کر دیا، مرزا کو دلّی کے بغیر چین کہاں؟ چند روز کے بعد رخصت ہو کر پھر وہیں چلے آئے چونکہ سرکاری پنشن بھی جاری ہو گئی تھی، اس لئے چند سال زندگی بسر کی۔

آخر عمر میں بڑھاپے نے بہت عاجز کیا، کانوں سے سنائی نہ دیتا تھا۔ نقشِ تصویر کی طرح لیٹے رہتے تھے، کسی کو کچھ کہنا ہوتا تھا تو لکھ کر رکھ دیتا تھا وہ دیکھ کر جواب دے دیتے تھے، خوراک دو تین برس سے یہ رہ گئی تھی کہ صبح کو پانچ سات بادام کا شیرہ، ۱۲ بجے آب گوشت، شام کو ۴ کباب تلے ہوئے، آخر ۷۳ برس کی عمر ۱۸۶۹ء ۱۲۸۵ھ میں جہان فانی سے انتقال فرمایا اور بندہ آٹم نے تاریخ لکھی۔ "آہ غالب بمرد" مرنے سے چند روز پہلے یہ شعر کہا تھا اور اکثر یہی پڑھتے رہتے تھے۔

دمِ واپسیں برسرراہ ہے

عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے

مرزا صاحب کے حالات اور طبعی عادات​

اس میں کچھ شک نہیں کہ مرزا اہل ہند میں فارسی کے باکمال شاعر تھے مگر علوم درسی کی تحصیل طالب علمانہ طور سے نہیں کی اور حق پوچھو تو یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ ایک امیرزادہ کے سر سے بچپن میں بزرگوں کی تربیت کا ہاتھ اٹھ جائے اور وہ نقطہ طبعی ذوق سے اپنے تئیں اس درجہ کمال تک پہنچائے۔ وہ کیسی طبع لایا ہو گا جس نے اس کے فکر میں بلند پروازی دماغ میں یہ معنی آفرینی، خیالات میں ایسا انداز، لفظوں میں نئی تراش اور ترکیب میں انوکھی روش پیدا کی۔جابجا خود ان کا قول ہے اور حقیقت میں لطف سے خالی نہیں کہ زبان فارسی سے مجھے مناسبت ازلی ہے، ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ میری طبیعت کو اس زبان سے ایک قدرتی لگاؤ ہے، میر مفتی عباس صاحب کو قاطع برہان بھیج کر خط لکھا ہے۔ اس میں فرماتے ہیں دیباچہ اور خاتمہ میں جو کچھ لکھ آیا ہوں سب سچ ہے۔ کلام کی حقیقت کی داد جدا چاہتا ہوں۔ نگارش لطافت سے خالی نہ ہو گی، علم و ہنر سے عاری ہوں لیکن پچپن برس سے محوِ سخن گزاری ہوں۔ مبدء فیاض کا مجھ پر احسانِ عظیم ہے، ماخذ میرا صحیح اور طبع میری سلیم ہے، فارسی کے ساتھ ایک مناسبت ازلی اور سرمدی لایا ہوں، مطابق اہل پارس کے منطق کا مزہ بھی ابدی لایا ہوں۔

ہرمزد نام ایک پارسی ژوند پاژند کا عالم تھا، اس نے اسلام اختیار کیا اور عبد الصمد اپنا نام رکھا۔ ایام سیاحت میں ہندوستان کیطرف آ نکلا اور مرزا سے بھی ملاقات ہوئی، اگرچہ ان کی عمر اس وقت ۱۴ برس کی تھی مگر مناسبتِ ازلی طبیعت میں تھی جس نے اُسے کھینچا۔ اور دو برس تک گھر مہمان رکھ کر اکتسابِ کمال کیا۔ اس روشن ضمیر کے فیضان صحبت کا انھیں فخر تھا اور حقیقت میں یہ امر فخر کے قابل ہے۔

میں نے چاہا کہ مراز صاحب کی تصویر الفاظ و معانی سے کھینچوں۔ مگر یاد آیا کہ انھوں نے ایک جگہ اسی رنگ و روغن سے اپنی تصویر آپ کھینچی ہے، میں اس سے زیادہ کیا کر لوں گا۔ اس کی نقل کافی ہے، مگر اول اتنا سن لو کہ مرزا حاتم علی مہرؔ ایک شخص آگرہ میں تھے، مرزا کے اور آخر عمر میں اس ہموطن بھائی سے خط و کتابت جاری ہوئی، وہ ایک وجیہ اور طرحدار جوان تھے۔ ان سے ان کی دید وادید نہ ہوئی، لیکن کسی زمانہ کی ہم وطنی، شعر گوئی، ہم مذہبی اور اتحاد خیالات کے تعلق سے شاید کسی جلسہ میں مرزا نےکہا کہ مرزا حاتم علی مہرؔ کو سنتا ہوں کہ طرحدار آدمی ہیں، دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔ اُنھیں جو یہ خبر پہنچی تو مرزا کو خط لکھا اور اپنا حلیہ بھی لکھا۔ اب اس کے جواب میں جو مرزا آپ ہی اپنی تصویر کھینچتے ہیں اُسے دیکھنا چاہیے "بھائی تمھاری طرحداری کا ذکر میں نے مغل جان سے سنا تھا جس زمانہ میں کہ وہ حامد علی خاں کی نوکر تھی اور اُس میں مجھ میں بے تکلفانہ ربط تھا تو اکثر مغل جان سے پہروں اختلاط ہوا کرتے تھے، اُس نے تمھارے شعر اپنی تعریف کے بھی مجھ کو دکھائے، بہر حال تمھارا حلیہ دیکھ کر تمھارے کشیدہ قامت ہونے کا مجھے رشک نہ ایا، کس واسطے کہ میرا قد بھی درازی میں انگشت نما ہے، تمھارے گندمی رنگ پر رشک نہ آیا، کس واسطے کہ جب میں نیتا تھا تو میرا رنگ چنپئی تھا اور دیدہ در لوگ اس کی ستائش کیا کرتے تھے، اب جو کبھی مجھ کو وہ اپنا رنگ یاد آتا ہے تو چھاٹی پر سانپ سا پھر جاتا ہے۔ ہاں مجھ کو رشک آیا اور میں نے خونِ جگر کھایا تو اس بات پر کہ (تمھاری) ڈاڑھی خوب گھٹی ہوئی ہے، وہ مزے یاد آ گئے کیا کہوں جی پر کیا گزری، بقول شیخ علی حزیں :

تا دستر سم بود زوم چاک گریباں

شرمندگی از کرقہ پشمینہ ندارم​

جب ڈاڑھی موچھ میں بال سفید آ گئے، تیسرے دن چیونٹی کے انڈے گالوں پر نظر آنے لگے۔ اس سے برھ کر یہ ہوا کہ آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے، ناچار (میں نے) مسّی بھی چھوڑ دی اور ڈاڑھی بھی، مگر یہ یاد رکھیے کہ اس بھونڈے شہر (یعنی دہلی میں) ایک دردی ہے عام، مُلّا، حافظ بساطی، نیچہ بند، دھوبی، سقہ، بھٹیارہ، جلاہا، کنجڑہ، منھ پر ڈاڑھی، سر پر بال، میں نے جس دن ڈاڑھی رکھی اُسی دن سر منڈایا۔ اس فقرہ سے معلوم ہوا کہ اپنا انداز سب سے الگ رکھنا چاہیے تھے۔ لباس ان کا اکثر اہل ولایت کا ہوتا تھا، سر پر اگرچہ کلاہ پاپاخ نہ تھی، مگر لمبی ٹوپی سیاہ پوستین کی ہوتی تھی اور ایسا ضرور چاہیے تھا۔ کیونکہ وہ فارسی نویسی کو نہ فقط ذوق بلکہ عشق دلی کے ساتھ نباہتے تھے اور لباس و گفتار کی کچھ خصوصیت نہیں، وہ اپنی قدامت کی ہر بات سے محبت رکھتے تھے، خصوصاً خاندان کے اعزازوں کو ہمیشہ جانکاہ عرق ریزیوں کے ساتھ بچاتے رہے، اس اعزاز کو کہ جو اُن کے پاس باقی تھے۔ دو دفعہ آسمانی صدمے پہنچے، اول جب کہ چچا کا انتقال ہوا، دوسرے جب ۱۸۵۸؁ء میں ناکردہ گناہ بغاوت کے جرم میں پنشن کے ساتھ کرسی دربار اور خلعت بند ہوا۔ اُردوئے معلٰی میں بیسوں دوستوں کے نام خط ہیں، کوئی اس کے ماتم سے خالی نہیں۔ اُن کے لفظوں سے اس غم میں خون ٹپکتا ہے اور دل پر جو گزرتی ہو گی، وہ تو خدا ہی کو خبر ہے، آخر پھر ان کی جگہ اور اپنا حق لیا اور بزرگوں کے نام کو قائم رکھا۔

۱۸۴۲ء میں گورنمنٹ انگلشیہ کو دہلی کالج کا انتظام از سرِ نو منظور ہوا۔ ٹامسن صاحب جو کئی سال تک اضلاعِ شمال و مغرب کے لفٹنٹ گورنر بھی رہے، اس وقت سکریٹری تھے، وہ مدرسین کے امتھان کے لئے دلی آئے اور چاہا کہ جس طرح سو روپیہ مہینہ کا ایک مدرس عربی ہے ایسا ہی ایک فارسی کا بھی ہو، لوگوں نے چند کاملوں کے نام بتائے، ان میں مرزا کا نام بھی آیا، مرزا صاحب حسب الطلب تشریف لائے، صاحب کو اطلاع ہوئی مگر یہ پالکی سے اتر کر اس انتظار میں ٹھہرے کہ حسبِ دستور قدیم صاحب سکریٹری استقبال کو تشریف لائیں گے، جب کہ نہ وہ ادھر سے نہ یہ ادھر سے گئے، دیر ہوئی تو صاحب سکریٹری نے جمعدار سے پوچھا، وہ پھر باہر آیا کہ آپ کیوں نہیں چلتے، انھوں نے کہا کہ صاحب استقبال کو تشریف نہیں لائے میں کیونکر جاتا، جمعدار نے جا کر پھر عرض کی، صاحب باہر آئے اور کہا جب آپ دربار گورنری میں بہ حیثیت ریاست تشریف لائیں گے تو آپ کی وہ تعظیم ہو گی لیکن اس وقت آپ نوکری کے لئے آئے ہیں، اس تعظیم کے مستحق نہیں، مرزا صاحب نے فرمایا کہ گورنمنٹ کی ملازمت باعثِ زیادتی اعزاز سمجھتا ہوں، نہ یہ کہ بزرگوں کے اعزاز کو بھی گنوا بیٹھوں، صاحب نے فرمایا کہ ہم آئین سے مجبور ہیں۔ مرزا صاحب رخصت ہو کر چلے آئے۔ صاحب موصوف نے مومن خاں صاحب کو بلایا، ان سے کتاب پڑھوا کر سُنی اور زبانی باتیں کر کے اسی (۸۰) روپے تنخواہ قرار دی۔ انھوں نے سو روپے سے کم منظور نہ کئے، صاحب نے کہا سو (۱۰۰) روپے لو تو ہمارے ساتھ چلو، ان کے دل نے نہ مانا کہ دلّی کو ایسا سستا بیچ ڈالیں۔ مرزا کے کھلے ہوئے دل اور کھلے ہوئے ہاتھ نے ہمیشہ مرزا کو تنگ رکھا، مگر اس تنگ دستی میں بھی امارت کے تمغے قائم تھے، چنانچہ اردوئے معلٰی کے اکثر خطوط سے یہ آئینہ ہے۔ مرزا تفتہ (مرزا صاحب سے بھی عمر میں بڑے معلوم ہوتے تھے، فارسی کے عاشق تھے، اس لئے باوجود ہندو ہونے کے مرزا تفتہ کے نام سے بڑے خوش ہوتے تھے، دیوانِ قصائد اور دیوان غزلیاب چھپوا دیا تھا، فارسی میں شعر کہتے تھے۔) اپنے شاگرد رشید کو ایک خط میں لکھتے ہیں۔ سو روپیہ کی ہنڈی وصول کر لی۔ ۲۴ روپیہ داروغہ کی معرفت اٹھے تھے وہ دیے، ۵۰ روپیہ محل میں دیے۔ ۲۶ باقی رہے وہ بکس میں رکھ لیے۔ کلیان سودا لینے بازار گیا ہے، جلد آ گیا تو آج ورنہ کل یہ خط ڈاک میں بھیج دوں گا۔ خدا تم کو جیتا رکھے اور اجر دے، بھائی بُری آ بنی ہے، انجام اچھا نظر نہیں آتا۔ قصّہ مختصر یہ کہ قصہ تمام ہوا۔

کدارناتھ آپ کا دیوان تھا، اسی عالم میں آ کر ماہ بماہ چٹھا بانٹ دیتا تھا۔ آپ کہیں سفر میں گئے ہیں تو اس کے لئے بار بار خطوط میں احکام بھیجتے ہیں، چنانچہ ایک خط میں لکھتے ہیں "ہنڈی میں ۱۲ دن کی میعاد تھی، ۶ دن گزر گئے تھے، ۶ دن باقی تھے، مجھ کو صبر کہا، مسّی کاٹ کر روپے لے لئے۔ قرض متفرق سب ادا ہوا، بہت سبک دوش ہو گیا۔ آج میرے پاس ۴۷ روپے نقد بکس میں ہیں اور ۴ بوتل شراب کی اور ۳ شیشے گلاب کے توشہ کانہ میں موجود ہیں، الحمد للہ علیٰ احسانہ"

ایک اور جگہ اپنی بیماری کا حال کسی کو لکھتے ہیں، محل سرا اگرچہ دیوان خانہ کے بہت قریب ہے پر کیا امکان جو چل سکوں، صبح کو ۹ بجے کھانا یہیں آ جاتا ہے۔ پلنگ پر سے کھل پڑا، ہاتھ منھ دھو کر کھانا کھایا، پھر ہاتھ دھوئے، کلی کی، پلنگ پر جا پڑا۔ پلنگ کے پاس حاجتی لگی رہتی تھی اٹھا اور حاجتی میں پیشاب کر لیا اور پڑ رہا۔

نواب آلہی بخش خاں مرحوم کی صاحبزادی سے مرزا صاحب کی شادی ہوئی اور اُس وقت ۱۳ برس کی عمر تھی۔ باوجودیکہ اوضاع و اطوار آزادانہ رکھتے تھے لیکن آخر صاحبِ خاندان تھے، گھرانے کی لاج پر خیال کر کے بی بی کے پاس خاطر بہت مدِّ نظر رکھتے تھے، پھر بھی اس قید سے کہ خلاف طبع تھی، جب بہت دق ہوتے تھے تو ہنسی میں ٹال دیتے تھے۔ چنانچہ دوستوں کی زبانی بعض نقلیں بھی نہیں، اور ان کے خطوط سے بھی اکثر جگہ پایا جاتا ہے۔ ایک قدیمی شاگرد سے ایسے معاملات میں بے تکلفی تھی۔ اس نے امراؤ سنگھ نام ایک اور شاگرد کی بی بی کے مرنے کا حال مرزا صاحب کو لکھا اور یہ بھی لکھا کہ ننھے ننھے بچے ہیں، اور اب شادی نہ کرے تو کیا کرے؟ پھر بچے کون پالے؟ اُس شخص کی ایک بی بی پہلے مر چکی تھی اور یہ دوسری بی بی مری تھی۔ اب حضرت اُس کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں، امراؤ سنگھ کے حال پر اُس کے واسطے رحم اور اپنے واسطے رشک آتا ہے، اللہ اللہ ایک وہ ہیں کہ دو بار بیڑیاں کٹ چکی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ ایک اوپر پچاس برس سے جو پھانسی کا پھندا گلے میں پڑا ہے تو نہ پھندا ہی ٹوٹتا ہے نہ دم ہی نکلتا ہے۔ اس کو سمجھاؤ کہ بھائی تیرے بچّوں کو میں پال لوں گا، تو کیوں بلا میں پھنستا ہے۔" جب ان کی پنشن کھلی تو ایک اور شخص کو لکھتے ہیں۔ "تجھ کو میری جان کی قسم اگر میں تنہا ہوتا تو اس قلیل آمدنی میں کیسا فارغ البال و خوش حال رہتا۔" مرزا صاحب نے فرزندانِ روحانی یعنی پاک خیالات اور عالی مضامین کا ایک انبوہ بے شمار اپنی نسل میں یادگار چھوڑا، مگر افسوس کہ جس قدر ادھر خوش نصیب ہوئے، اسی قدر فرزندانِ ظاہری کی طرف سے بے نصیب ہوئے، چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں "سات بچے ہوئے مگر برس برس دن کے پس و پیش میں سب ملکِ عدم کو چلے گئے۔" اُن کی بی بی کے بھانجے آلہی بخش مرحوم کے نواسے زین العابدین خاں تھے۔ وہ بھی شعر کہا کرتے تھے اور عارف تخلص کرتے تھے، عارف جوان مر گئے اور دو ننھے ننھے بچے یادگار چھوڑے، بی بی ان بچوں کو بہت چاہتی تھیں، اس لئے مرزا نے انھیں اپنے بچوں کی طرح پالا، بڑھاپے میں انھیں اپنے گلے کا ہار کئے پھرتے تھے، جہاں جاتے وہ پالکی میں ہوتے تھے، اُن کے آرام کے لئے آپ بے آرام ہوتے تھے، اُن کی فرمائشیں پوری کرتے تھے۔ افسوس کے مرزا کے بعد دونوں جوان مر گئے۔ نواب احمد بخش خاں مرحوم کے رشید فرزند مرزا صاحب کی تکلیف نہ دیکھ سکتے تھے۔ کمال کی دولت ان سے لیتے تھے۔ دنیا کی ضرورتوں میں انھیں آرام دیتے تھے۔ چنانچہ نواب ضیاء الدین خاں صاحب شاگرد ہیں۔ نواب امین الدین خاں مرحوم لوہارو بھی آداب خوردانہ کے ساتھ خدمت کرتے تھے۔ نواب علاؤ الدین خاں وائی حال اس وقت ولی عہد تھے۔ بچپن سے شاگرد ہیں چنانچہ مرزا صاحب نواب علاؤ الدین خاں صاحب کو لکھتے ہیں۔ "میاں بڑی مصیبت میں ہوں، محلسرا کی دیواریں گر گئی ہیں، پاخانہ ڈھ گیا۔ چھتیں ٹپک رہی ہیں۔ تمھاری پھوپھی (نواب آلہی بخش خاں مرحوم کی بیٹی، نواب احمد بخش خاں مرحوم کی حقیقی بھتیجی ہوئیں، وہ ان کی بی بی تھیں۔) کہتی ہیں "ہائے دبی مری، دیوان خانہ کا حال محل سرا سے بدتر ہے، مرنے سے نہیں ڈرتا، فقدانِ راحت سے گھبرا گیا ہوں۔ چھت چھلنی ہے، ابر دو گھنٹے برسے تو چھت چار گھنٹے برستی ہے۔ مالگ اگر چاہے کہ مرمت کرے تو کیونکر کرے۔ مینھ کھلے تو سب کچھ ہو اور پھر اثنائے مرمت میں میں بیٹھا کس طرح رہوں۔ اگر تم سے ہو سکے تو برسات تک بھائی سے وہ حویلی جس میں میر حسن رہتے تھے اپنی پھوپھی کے رہنے کو اور کوٹھی میں سے وہ بالا خانہ مع دالان زیرین جو آلہی بخش خاں مرحوم کا مسکن تھا، میرے رہنے کو دلوا دو، برسات گزر جائے گی، مرمت ہو جائیگی پھر صاحب اور میم اور بابا لوگ (چونکہ کوٹھے کا مکان رہنے کو مانگا ہے اس لئے اپنے تئیں صاحب اور بی بی صاحبہ اور بچوں کو بابا لوگ بنایا۔) اپنے قدیم مسکن میں آ رہیں گے۔ تمھارے والد کے ایثار و عطا کے جہاں مجھ پر احسان ہیں، ایک یہ مروت کا احسان میرے پایان عمر میں اور بھی سہی۔ غالبؔ"

مرزا کثیر الاحباب تھے، دوستوں سے دوستی کو ایسا نباہتے تھے کہ اپنایت سے زیادہ ان کی دوست پرستی خوش مزاجی کے ساتھ فریق ہو کر ہر وقت ایک دائرہ شرفا اور رئیس زادوں کا ان کے گرد دکھاتی تھی، انہی سے غم غلط ہوتا تھا اور اسی میں ان کی زندگی تھی۔ لطف یہ کہ دوستوں کے لڑکوں سے بھی وہی باتیں کرتے تھے، جو دوستوں سے ۔ ادھر ہونہار جوانوں کا مؤدب بیٹھنا، ادھر سے بزرگانہ لطیفوں کا پھول برسانا، ادھر سعادت مندوں کا چپ مسکرانا اور بولنا تو حد ادب سے قدم نہ بڑھانا، ادھر پھر بھی شوخی طبع سے باز نہ آنا، ایک عجیب کیفیت رکھتا تھا، بہرحال انہی لطافتوں اور ظرافتوں میں زمانے کی مصیبتوں کو ٹالا اور ناگوار کو گوارا کر کے ہنستے کھیلتے چلے گئے، چنانچہ میر مہدی، میر سرفراز حسین، نواب یوسف مرزا وغیرہ اکثر شریف زادوں کے لئے خطوط اردوئے معلی میں ہیں، جو کہ ان جلسوں کے فوٹو گراف دکھاتے ہیں۔

زمانہ کی بے وفائی نے مرزا کو وہ فارغ البالی نصیب نہ کی جو ان کے خاندان اور کماں کے لئے شایاں تھی، اور انہی دو باتوں کا مرزا کو بہت خیال تھا، لیکن اس کے لئے وہ اپنے جی کو جلا کر دل تنگ بھی نہ ہوتے تھے بلکہ ہنسی میں اڑا دیتے تھے۔ ان دونوں باتوں کی سند میں دو خط نقل کرتا ہوں (دیکھو اردوئے معلی کے خطوط)۔ ایک خط میر مہدی صاحب کے نام ہے کہ ایک شریف عالی خاندان ہیں اور اُن کے رشید شاگرد ہیں، دوسرا خط منشی ہرگوپال صاحب تفتہؔ کے نام ہے، جن کا ذکر مجملاً پہلے کیا گیا ہے۔

میر مہدی تم میری عادات کو بھول گئے، ماہ مبارک رمضان میں کبھی مسجد جامع کی تراویح ناغہ ہوئی ہے؟ میں اس مہینہ میں رام پور کیونکر رہتا، نواب صاحب مانع رہے اور بہت منع کرتے رہے، برسات کے آموں کا لالچ دیتے رہے، مگر بھائی میں ایسے انداز سے چلا کہ چاند رات کے دن یہاں آ پہنچا، یکشنبہ کو غرّہ ماہ مقدس ہوا۔ اسی دن سے ہر صبح کو حامد علی خاں کی مسجد میں جا کر جناب مولوی جعفر علی صاحب سے قرآن سنتا ہوں، شب کو جامع مسجد میں جا کر تراویح پڑھتا ہوں، کبھی جو جی میں آتی ہے تو وقتِ صوم مہتاب باغ میں جا کر روزہ کھولتا ہوں، اور سرد پانی پیتا ہوں، واہ واہ کیا اچھی عمر بسر ہوتی ہے (غرہ رمضان سے لے کر یہاں تک فقط شوخی طبع ہے کیوں کہ جو جو باتیں ان فقروں میں ہیں مرزا ان سے کوسوں بھاگتے تھے، یہ خط غدر کے بعد کا ہے، اس وقت یہ باتیں دلی میں خواب و خیال ہو گئی تھیں۔) اب اصل حقیقت سنو، لڑکوں کو ساتھ لے گیا تھا، وہاں انھوں نے میرا ناک میں دم کر دیا، تنہا بھیج دینے میں وہم آیا کہ خدا جانے اگر کوکئی امر حادث ہو تو بدنامی عمر بھر رہے، اس سبب سے جلد چلا آیا، ورنہ گرمی، برسات وہیں کاٹتا۔ اب بشرطِ حیاتِ جریدہ بعد برسات جاؤں گا اور بہت دنوں تک یہاں نہ آؤں گا۔ قرار داد یہ ہے کہ نواب صاحب جولائی ۱۸۵۹ء سے کہ جس کو یہ دسواں مہینہ ہے، سو روپے مجھے ماہ بماہ بھیجتے ہیں۔ اب میں جو وہاں گیا تو سو روپیہ مہینہ بنامِ دعوت اور دیا، یعنی رامپور رہوں تو دو سو روپیہ پاؤں اور دلی رہوں تو سو روپے۔ بھائی! سو دو سو میں کلام نہیں۔ کلام اس میں ہے کہ نواب صاحب دوستانہ و شاگردانہ دیتے ہیں، مجھے نوکر نہین سمجھتے ہیں۔ ملاقات بھی دوستانہ رہی، معانقہ و تعظیم جس طرح احباب میں رسم ہے، وہ صورت ملاقات کی ہے، لڑکوں سے میں نے نذر دلوائی تھی بس بہرحال غنیمت ہے۔ رزق کے اچھی طرح ملنے کا شکر چاہیے۔ کمی کا شکوہ کیا؟ انگریز سرکار سے دس ہزار روپیہ سال ٹھہرے، اس میں مجھ کو ملے ساڑھے سات سو روپیہ سال، ایک صاحب نہ نہ دیئے۔ مگر تین ہزار روپیہ سال، عزت میں وہ پایہ، جو رئیس زادوں کے واسطے ہوتا ہے، بنا رہا۔ خاں صاحب بسیار مہربان دوستان القاب، خلعت سات پارچہ اور جیغہ و سرپیچ و مالائے مروارید۔ بادشاہ اپنے فرزندوں کے برابر پیار کرتے تھے۔ بخشی، ناظر، حکیم، کسی سے توقیر کم نہیں۔ مگر فائدہ وہی قنیل، سو میری جان! یہاں بھی وہی نقشہ ہے، کوٹھری مین بیٹھا ہوں، ٹٹی لگی ہوئی ہے، ہوا آ رہی ہے، پانی کا جھجرا دھرا ہوا ہے۔ حقہ پی رہا ہوں۔ یہ خط لکھ رہا ہوں، تم سے باتیں کرنے کو جی چاہا، یہ باتیں کر لیں۔

خط بنام منشی ہرگوپال تفتہ – بس اب تم سکندر آباد میں رہے، کہیں اور کیوں جاؤ گے، بنک گھر کا روپیہ اٹھا چکے ہو، اب کہاں سے کھاؤ گے میاں! نہ میرے سمجھانے کو دخل ہے نہ تمھارے سمجھنے کی جگہ ہے۔ ایک چرخ ہے کہ وہ چلا جاتا ہے، جو ہونا ہے وہ ہوا جاتا ہے، اختیار ہو تو کچھ کیا جائے۔ کہنے کی بات ہو تو کہا جائے، مرزا عبد القادر بیدلؔ کہتا ہے :

رغبت جاہ چہ و نفرتِ اسباب کدام

زیں ہو سہا بگزر یا نگزر ہیگزرد​

مجھ کو دیکھو کہ نہ آزاد ہوں نہ مقید، نہ رنجور ہوں نہ تندرست نہ خوش ہوں نہ ناخوش نہ مردہ ہوں نہ زندہ، جئے جاتا ہوں، باتیں کئے جاتا ہوں۔ روٹی روز کھاتا ہوں، شراب گاہ بگاہ پئے جاتا ہوں۔ جب موت آئے گی مر بھی رہوں گا۔ نہ شکر ہے نہ شکایت ہے، جو تقریر بہ سبیل حکایت ہے۔

مرزا کے تمام خاندان کا اور بزرگوں کا مذہب سنت و جماعت تھا مگر اہلِ راز اور تصنیفات سے بھی ثابت ہے کہ ان کا مذہب شیعہ تھا اور لطف یہ تھا کہ ظہور اس کا جوشِ محبت میں تھا نہ کہ تبّرا اور تکرار میں، چنانچہ اکثر لوگ انھیں نصیری کہتے تھے اور وہ سُن کر خوش ہوتے تھے۔ ایک اور جگہ کہتے ہیں :

منصور فرقہ علی اللہیاں منم

آوازہ انا اسد اللہ برافگنم​

تمام اقربا اور حقیقی دوست سنت و جماعت تھے لیکن اُن کی اپنایت میں کسی طرح کی دوئی نہ معلوم ہوتی تھی۔ مولٰنا فخر الدین کے خاندان کے مرید بھی تھے۔ دربار اور اہل دربار میں کبھی اس معاملہ کو نہیں کھولتے تھے اور یہ طریقہ دہلی کے اکثر خاندانوں کا تھا۔ تصنیفات اردو میں ۱۸۰۰ شعر کا ایک دیوانِ انتخابی ہے کہ ۱۸۴۹؁ء میں مرتب ہو کر چھپا۔ اس میں کچھ تمام اور کچھ ناتمام غزلیں ہیں، اور کچھ متفرق اشعار ہیں۔ غزلوں کے تخمیناً ۱۵۰۰ شعر، قصیدوں کے ۱۶۲۰ شعر، مثنوی ۳۳ شعر، متفرقات قطعوں کے ۱۱۱ شعر رباعیاں ۱۶، دو تاریخیں جن کے ۴ شعر، جسقدر عالم میں مرزا کا نام بلند ہے۔ اس سے ہزار درجہ معنی میں کلام بلند ہے۔ بلکہ اکثر شعر ایسے اعلٰی درجہ رفعت پر واقع ہوئے ہیں کہ ہمارے نارسا ذہن وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔ جب ان شکایتوں کے چرچے زیادہ ہوئے تو اس ملک بے نیازی کے بادشاہ نے کہ اقلیم سخن کا بھی بادشاہ تھا، اپنی غزل کے ایک شعر سے سب کو جواب دے دیا۔

نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پروا

نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی​

ایک اور رباعی بھی کہی :

مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل

سُن سُن کے اُسے سخنورانِ کامل


آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش

گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل​

ایک دن اُستاد مرحوم سے مرزا صاحب کے اندازِ نازک خیالی کا اور فارسی ترکیبوں کا اور لوگوں کی مختلف طبیعتوں کا ذکر تھا، میں نے کہا بعض شعر صاف بھی نکل جاتا ہے تو قیامت ہی کر جاتا ہے۔ فرمایا، خوب! پھر کہا کہ جو مرزا کا شعر ہوتا ہے اُس کی لوگوں کو خبر بھی نہیں ہوتی، شعر اُن کے میں تمھیں سناتا ہوں، کئی متفرق شعر پڑھے تھے، ایک اب تک خیال

دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک

میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا​

اس میں کلام نہیں کہ وہ اپنے نام کی تاثیر سے مضامین و معانی کے ہمیشہ کے شیر تھے، دو باتیں ان کے انداز کے ساتھ خصوصیت رکھتی ہیں، اول یہ کہ معنی آفرینی اور نازک خیال اُن کا شیوہ خاص تھا۔ دوسرے چونکہ فارسی کی مشق زیادہ تھی اور اس سے انھیں طبعی تعلق تھا، اس لیئے اکثر الفاظ اس طرح ترکیب دے جاتے تھے کہ بول چال میں اُس طرح بولتے نہیں لیکن جو شعر صاف صاف نکل گئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ جواب نہیں رکھتے، اہل ظرافت بھی اپنی نوک جھوک سے چوکتے نہ تھے، چنانچہ ایک دفعہ مرزا بھی مشاعرہ میں تشریف لے گئے، حکیم آغا جان عیشؔ ایک خوش طبع شگفتہ مزاج شخص تھے، دیکھو صفحہ ۶۱۷، غزل طرحی میں یہ قطعہ پڑھا۔

اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے

مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے


کلامِ میرؔ سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھ

مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے​

اسی واسطے اور آخر عمر میں نازک خیالی کے طریقہ کو بالکل ترک کر دیا تھا۔ چنانچہ دیکھو اخیر کی غزلیں صاف صاف ہیں، دونوں کی کیفیت جو کچھ ہے معلوم ہو جائے گی۔ سن رسیدہ اور معتبر لوگوں سے معلوم ہوا کہ حقیقت میں ان کا دیوان بہت بڑا تھا، یہ منتخب ہے، مولوی فضل حق صاحب فاضل بے عدیل تھے۔ ایک زمانہ میں دہلی کی عدالت ضلع میں سررشتہ دار مرزا قتیل صاحب کے شاگرد تھے، نظم و نثر فارسی اچھی لکھتے تھے، غرض کہ یہ دونوں باکمال مرزا صاحب کے دلی دوست تھے۔ ہمیشہ باہم دوستانہ جلسے اور شعر و سخن کے چرچے رہتے تھے، انھوں نے اکثر غزلوں کو سُنا اور دیوان کو دیکھا تو مرزا صاحب کو سمجھایا کہ یہ شعر عام لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں گے، مرزا نے کہا اتنا کچھ کہہ چکا، اب تدارک کیا ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ خیر ہوا سو ہوا، انتخاب کرو، اور مشکل شعر نکال ڈالو، مرزا صاحب نے دیوان حوالہ کر دیا۔ دونوں صاحبوں نے دیکھ کر انتخاب کیا۔ یہی وہ دیوان ہے جو کہ آج ہم عینک کی طرح آنکھوں سے لگائے پھرتے ہیں۔

عود ہندی : کچھ تقریظیں کچھ اور نثریں اور خطوط ہیں۔ اکثر خطوں میں ان لوگوں کے جواب ہیں، جنھوں نے کسی مشکل شعر کے معنی پوچھے یا کوئی امر تحقیق طلب فارسی یا اردو کا دریافت کیا۔

اردوئے معلٰی : ۱۲۸۵ھ ۱۸۶۹ء – چند شاگردوں اور دوستوں نے جس قدر اردو کے خطوط ان کے ہاتھ آئے ایک جگہ ترتیب دیئے اور اس مجموعہ کا نام مرزا نے خود اُردوئے معلٰی رکھا، ان خطوط کی عبارت ایسی ہے گویا آپ سامنے بیٹھے گل افشانی کر رہے ہیں، مگر کیا کریں کہ ان کی باتیں بھی خاص فارسی کی خوش نما تراشوں اور عمدہ ترکیبوں سے مرصع ہوتی تھیں۔ بعض فقرے کم استعداد ہندوستانیوں کے کانوں کو نئے معلوم ہوں تو وہ جانیں، یہ علم کم کم رواجی کا سبب ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں "کیا جگر خون کُن اتفاق اب و رنگ درزی کی تقصیر معاف کیجیے۔ پس چاہیے کول کی ارامش کا ترک کانا، اور خواہی نخواہی بابو صاحب کے ہمراہ رہنا، یہ رتبہ میری ارزش کے فوق ہے۔ سرمایہ نازش قلمرو ہندوستان ہو۔" بعض جگہ خاص محاورہ فارسی ترجمہ کیا ہے۔ جیسے میرؔ اور سودا وغیرہ استادوں کے کلام میں لکھا گیا ہے۔ چنانچہ انہی خطوں میں فرماتے ہیں۔ "اس قدر عذر چاہتے ہو۔" یہ لفظ اُن کے قلم سے اس واسطے نکلا کہ عذر خواستن جو فارسی کا محاورہ ہے وہ اس باکمال کی زبان پر چڑھا ہوا ہے، ہندوستانی عذر کرنا یا عذر معذرت کرنی بولتے ہیں۔ نظر اس دستور پر اگر کر دیکھو تو مجھے اس شخص سے خس برابر علاقہ عزیز داری کا نہیں، یہ بھی ترجمہ بریں ضابطہ کا ہے۔ منشی نبی بخش تمھارے خط نہ لکھنے کا گلہ رکھتے ہیں۔ گلہ ہا دارندو شکوہ ہا دارندفارسی کا محاورہ ہے۔ کیوں مہاراج کول میں آنا، منشی نبی بخش کے ساتھ غزل خوانی کرنا ! اور ہم کو یاد نہ لانا! یاد آوردن خالص ایران کا سکہ ہے، ہندوستانی یاد کرنا بولتے ہیں۔ جو آپ پر معلوم ہے، وہ مجھ پر مجہول در ہے، ہرچہ برشما منکشف است برمن مخفی نماند۔

ان خطوں کی طرز عبارت بھی ایک خاص قسم کی ہے کہ ظرافت کے چٹکلے اور لطافت کی شوخیاں اُس میں خوب ادا ہو سکتی ہیں، یہ انہی کا ایجاد تھا کہ آپ مزا لے لیا اور اوروں کو لطف دے گئے۔ دوسرے کا کام نہیں۔ اگر کوئی چاہے کہ ایک تاریخی حال یا اخلاقی خیال یا علمی مطالب یا دنیا کے معاملاتِ خاص میں مراسلے لکھے تو اس انداز میں ممکن نہیں۔ اس کتاب میں چونکہ اصلی خط لکھے ہیں، اس لئے وہ ان کی ظاہر و باطن کی حالت کا آئینہ ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے غم و الم ہمیشہ انھیں بتاتے تھے، اور وہ علّو حوصلہ سے ہنسی ہی میں اڑاتے تھے۔ پورا لطف ان تحریروں کا اُس شخص کو آتا ہے کہ جو خود اُن کے حال سے اور مکتوب الیہوں کی چال ڈھال سے اور طرفین کے ذاتی معاملات سے بخوبی واقف ہو۔ غیر آدمی کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ اس لئے اگر ناواقف اور بے خبر لوگوں کو اس میں مزہ نہ آئے تو کچھ تعجب نہیں۔

اس کتاب میں قلم، التماس کو مؤنث، پنشن، بیداد، بارک کو مذکر فرمایا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں "میرا اردو بہ نسبت اوروں کے فصیح ہو گا۔"

لطائف غیبی : اس رسالہ میں منشی سعادت علی کی طرف روئے سخن ہے۔ اگرچہ اس کے دیباچہ میں سیف الحق کا نام لکھا ہے۔ مگر اندازِ عبارت اور عبارت کے چٹکلے صاف کہتے ہیں کہ مرزا ہیں، وہ درحقیقت وہی میاں داد خاں ہیں جن کے نام چند رقعے مرزا صاحب کے اردوئے معلٰی میں ہیں۔ چنانچہ ایک رقعہ میں انھیں فرماتے ہیں کہ صاحب میں نے تم کو سیف الحق کا خطاب دیا" تم میری فوج کے سپہ سالار ہو۔

تیغ تیز : مولوی احمد علی پروفیسر مدرسہ ہگئی نے قاطع برہان کے جواب میں موید البرہان لکھی تھی، اس کے بعض مراتب کا جواب مرزا صاحب نے تحریر فرما کر تیغ تیز نام رکھا۔

ساطع برہان کے اخیر میں چند ورق سید عبد اللہ کے نام سے ہیں وہ بھی مرزا صاحب کے ہیں۔ (اوجؔ تخلص، عبد اللہ خاں نام، ۴۰، ۵۰ برس کے مشاق تھے۔ ایسے بلند مضمون اور نازک خیال پیدا کرتے تھے کہ قابو میں نہ لا سکتے تھے اور انھیں عمدہ الفاظ میں ایسی چستی اور درستی سے باندھتے تھے کہ وہ مضمون سما بھی نہیں سکتا تھا، اسلئے کبھی تو مطلب کچھ کا کچھ ہو جاتا تھا اور کبھی کچھ بھی نہ رہتا تھا۔ سنگلاخ اور مشکل زمینوں میں غزل کہتے تھے۔ فکر مضامین اور تلاش الفاظ میں تن بدن کا ہوش نہ تھا۔ غور کے ساتھ کاوش کرتے تھے اور آپ ہی آپ مزے لیتے تھے۔ ہونٹ چباتے چباتے ایک طرف سے سفید ہو گیا تھا۔ بعض شعر پڑھ کر کہتے تھے کہ آنکھوں سے لہو ٹپک پڑا تھا۔ جب یہ شعر کہا تھا۔ بعض یہ کہتے تھے کہ ۶ مہینے تک برابر پڑھتے رہے، پڑھتے اس زور شور سے تھے کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ مشاعروں میں غزل سناتے تھے تو صف مجلس سے گزگز بھر آگے نکل جاتے تھے۔ بعض اشخاص شہر کے اور قلعہ میں اکثر مرشد زادے (شہزادے) شاگرد تھے مگر استاد سب کہتے تھے۔ شعرائے باکمال کو جا کر سناتے تھے اور واہ واہ کی چیخیں اور تعریفوں کے فغان و فریاد لے کے چھوڑتے تھے کیونکہ اسے اپنا حق سمجھتے تھے۔ ذوقؔ مرحوم باوجود کم سخنی اور عادت خاموشی کے خوب خوب اور بہت خوب کہتے اور مکرر پڑھواتے تھے، مسکراتے اور چہرے پر سرور ظاہر کرتے گویا شعر کی کیفیت میں بیٹھے ہیں اور مرزا تو ایسے دل لگی کے مصالح ڈھونڈھتے رہتے ہیں، یہ نعمت خدا دے، شعر سنتے اور کہتے تھے کہ یہ سب کافر ہیں جو تمھیں استاد کہتے ہیں، شعر کے خدا ہو خدا، سجدہ کا اشارہ کرتے اور کہتے سبحان اللہ، سبحان اللہ، میں ان دنوں میں مبتدی شوقین تھا۔ اپنا مشتاق سمجھ کر مجھ سے بہت خوش ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ بس تم ہمارے کلام کو سمجھتے ہو، رستہ میں مل جاتے تو دس قدم دور سے دیکھ کر کھڑے ہو جاتے اور جو نیا شعر کہا ہوتا اُسے وہیں سے اکڑ کر پڑھتے، پھر شعر سنتے سناتے چلتے۔ قلعہ کے نیچے میدان میں گھنٹوں ٹہلتے اور شعر پڑھتے رہتے۔ غریب خانہ پر بھی تشریف لاتے اور پہر بھر سے کم نہ بیٹھتے۔ ایک دن راستہ میں ملے، دیکھتے ہی کہنے لگے، آج گیا تھا اُنھیں بھی سُنا آیا۔ میں کہا کیا؟ کڑک کر کہا :

ڈیڑھ جز پر بھی تو ہے مطلع و مقطع غائب

غالبؔ آسان نہیں صاحب دیوان ہونا​

پھر بیان کیا کہ ایک جلسہ میں مومن خاں بھی موجود تھے۔ مجھ سے سب نے شعر کی فرمائش کی۔ میں نے ناسخؔ کی غزل پر غزل کہی تھی، وہ سنائی، مقطع پر بہت حیران ہوئے۔ ع : کہ" جس کو کہتے ہیں چرخ ہفتم ورق ہے دیوان ہفت میں کا" پوچھنے لگے کہ کیا آپ ساتواں دیوان لکھتے ہیں، میں نے کہا کہ ہاں اب تو آٹھواں دیوان ہے، چپ ہو گئے۔

عمومی واقعات پر اکثر شعر کہا کرتے تھے۔ مومن خاں کو کنور اجیت سنگھ نے ہتنی دی۔ (دیکھو صفحہ ۶۰۱) آپ نے کہا۔

جہنموں میں وہ مومنؔ مکان لیتا ہے

نجومی بن کے جو ہتنی کا دان لیتا ہے​

دلی میں شیریں ایک بڑی نامی رنڈی تھی، وہ حج کو چلی، آپ نے کہا :

بجا ہے شیریں اگر چھوڑ دلی حج کو چلی

مثل ہے نو سو چوہے کھا کے بلّی حج کو چلی​

۲۰، ۳۰ برس ہو گئے، وہ چرچے نہ رہے، اکثر شعر یاد تھے، حافظہ نے بے وفائی کی، شاید حروف و کاغذ وفا کریں، جو یاد ہے لکھ دیتا ہوں اور اُن کی جاں خراشی اور بربادی کا افسوس کرتا ہوں۔

ہیں مچھلیاں بھووں کی چیں پر شکن کے اندر
اُلٹی ہے بہتی گنگا مچھلی بھون کے اندر

دنیائے منقلب کا اُلٹا ہے کارخانہ
ہے مہر شمع و اژدں، اس انجمن کے اندر

میں وہ ہوں نخل جوئے سلسبیل دریائی
ہے میری کشتی گل نارجیل دریائی

مجھے اُترتی ہے گرداب آسماں سے وحی
ہے راہبر خضر جبرئیل دریائی

میں کالا پانی پڑا ناپتا ہوں روز و شب
زمیں کا گز ہے مرا کلکِ میں دریائی

بنا ہے کنگرہ خارد، ملک دشت حصار
مرا ہے آبلہ بُرجِ فصیل دریائی

ہے آبشاری کی مضمونِ آبدار کو دہت
ہمارا خامہ ہے خرطوم فیل دریائی

جہاز ہے مرا اک تار لنگرِ دم پر
مرے عمل میں ہے جر ثقیل دریائی

میں اپنے کوچ کی ہوں موج میں بہا جاتا
حباب دار ہوں کوسِ رحیل دریائی

ہماری موج تلاطم سے آشنائی ہے
یہ آب شور ہے دیتا رفیل دریائی

ہے اوجِ مردمکِ دیدہ، مردم آبی
نکال دیدہ تر سے سبیل دریائی

وھشت مجھے زنجیر پہناتی ہی تھی اکثر
طفلی میں بھی ہنسلی مری جاتی ہی تھی اکثر

جب تھا زرگل کیسئہ غنچہ کی گرد میں
بلبل پڑی گلچھّرے اڑاتی ہی تھی اکثر

دم کا جو دمدمہ یہ باندھے خیال اپنا
بے پل صراط اتریں، یہ ہے کمال اپنا

طفلی ہی سے ہے مجھ کو وحشت سرا سے الفت
سم میں گڑا ہوا ہے آہو کے نال اپنا

کسب شہادت اپنا ہے یاد کس کو قاتل
سانچے میں تیغ کے سر لیتے ہیں ڈہال اپنا

بھارتا ہے جوش عشقِ شیریں و شونمیں رونا
ہے آب شور گریہ آب زلال اپنا

چیچک کے آبلوں کی میں باگ موڑتا ہوں


تصنیفات فارسی​

فارسی کی تصنیفات کی حقیقت حال کا لکھنا اور اُن پر رائے لکھنی اُردو کے تذکرہ نویس کا کام نہیں ہے، اس لئے فقط فہرست لکھتا ہوں۔

قصائد؛ حمد و نعت آئمہ معصومین کی مدح میں، بادشاہ دہلی، شاہ اودھ، گورنروں اور بعض صاحبان عالیشان کی تعریف میں ہیں۔

غزلوں کا دیوان ۔ مع دیوان قصائد کے ۳۳ و ۳۵ء میں مرتب ہو کر نقلوں کے ذریعہ اہل ذوق میں پھیلا، اور اب تک کئی دفعہ چھپ چکا ہے۔

پنج آہنگ : اس میں پانچ آہنگ کے پانچ باب فارسی کے انشاپردازوں کے لئے جو کہ ان کے انداز میں لکھنا چاہیں ایک عمدہ تصنیف ہے۔

۱۸۶۲ء میں قاطع برہان چھپی، بعد کچھ تبدیلی کے اسی کو پھر چھپوایا اور درفش کادیانی نام رکھا، برہان قاطع کی غلطیاں نکالی ہیں مگر پر فارسی کے دعویداروں سخت حملوں کے ساتھ مخالفت کی۔

نامہ غالبؔ : قاطع برہان کے کئی شخصوں نے جواب لکھے ہیں۔ چنانچہ میرٹھ میں حافظ عبد الرحیم نام ایک معلم نابینا تھے، انھوں نے اس کا جواب ساطع برہان لکھا، مرزا صاحب نے خط کے عنوان میں حافظ صاحب موصوف کو بطور جواب کے چند ورق لکھے اور ان کا نام نامہ غالب رکھا۔

مہر نیمروز : حکیم احس اللہ خاں طبیب خاص بادشاہ کے تھے۔ انھیں تاریخ کا شوق تھا۔ اور اہلِ کمال کے ساتھ عموماً تعلق خاطر رکھتے تھے۔ مرزا نے ان کے ایما سے اول کتاب مذکور کا ایک حصہ لکھا۔ اسی کے ذریعہ سے ۱۸۵۰؁ء میں باریاب حضور ہو کر خدمت تاریخ نویسی پر مامور ہوئے اور نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ بہادر نظامِ جنگ خطاب ہوا، چنانچہ پہلی جلدیں امیر تیمور سے ہمایوں تک کا حال بیان کر کے مہرنیمروز نام رکھا۔ ارادہ تھا کہ اکبر سے لیکر بہادر شاہ تک کا حال لکھیں اور ماہ نیم ماہ نام رکھیں کہ غدر ہو گیا۔

دستنبو : ۱۱ مئی ۱۸۵۷ء سے یکم جولائی ۱۸۵۸ ء تک حال بغاوت، روداد تباہی شہر، اپنی سرگزشت، غرض کل ۱۵ مہینے کا حال لکھا۔

سید چیں : دو تین قصیدے، چند قطعے، چند خطوط فارسی کے اس میں ہیں کہ دیوان میں درج نہ ہوئے تھے۔

اواخر عمر میں اپنا کلام اپنے پاس نہ رکھتے تھے، اردو کی تصنیفات، نواب حسین مرزا صاحب کے پاس رہتی تھیں اور ترتیب کرتے جاتے تھے۔ فارسی نواب ضیاء الدین احمد صاحب کو بھیج دیتے تھے کہ انھیں نیّر رخشاں تخلص کر کے اپنا شاگرد رشید اور خلیفہ اول قرار دیا تھا، خلیفہ دوم، نواب علاؤ الدین خاں صاحب تھے۔

ان کے خطوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی انشا پردازی کے شوق کو بڑی کاوش اور عرق ریزی سے نباہتے تھے، اسی واسطے مرنے سے ۱۰، ۱۵ برس پہلے ان کی تحریریں اردو میں ہوتی تھیں، چنانچہ ایک دوست کے خط میں خود فرماتے ہیں۔

بندہ نواز! زبان فارسی میں خطوں کا لکھنا پہلے سے متروک ہے، پیرانہ سری اور ضعف کے صدموں سے محنت پژدہی اور جگر کادی کی قوت مجھ میں نہیں رہی۔ جراءت عزیزی کو زوال ہے اور یہ حال ہے کہ :

مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ

وہ عناصر میں اعتدال کہاں​

کچھ آپ ہی کی تخصیص نہیں، سب دوستوں کو جن سے کتابت رہتی ہے، اردو ہی میں نیاز نامے لکھا کرتا ہوں۔ جن جن صاحبوں کی خدمت میں آگے میں نے فارسی زبان میں خطوط لکھے اور بھیجے تھے، ان میں سے الی الآن موجود ہیں، اُن سے بھی عند الضرورت اسی زبان مروج میں مکاتیب مراسلت کا اتفاق ہوا کرتا ہے۔

اردوئے معلٰی میں مرزا حاتم علی مہرؔ کو تحریر فرماتے ہیں "میرا ایک قطعہ ہے کہ وہ میں نے کلکتہ میں کہا تھا، تقریب یہ کہ مولوی کرم حسین ایک میرے دوست تھے، انھوں نے ایک مجلس میں چکنی ڈلی بہت پاکیزہ اور بے ریشہ اپنے کف دست پر رکھ کر مجھ سے کہا کہ اس کی تشبیہات نظم کیجئے، میں نے بیٹھے بیٹھے نو، دس شعر کا قطعہ لکھ کر ان کو دیا اور صلہ میں وہ ڈلی اُن سے لی۔

قطعہ

ہے جو صاحب کے کفِ دست پہ یہ چکنی ڈلی
زیب دیتا ہے اُسے جس قدر اچھا کہیے

خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا کہیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

اخترِ سوختہ قیس سے نسبت دیجیے
خالِ مشکینِ رُخِ دلکش لیلےٰ کہیے

حجر الاسود و دیوارِ حرم کیجئے فرض
نافہ آہوئے بیابان ختن کا کہیے

صومعہ میں اسے ٹھہرائیے گر مُہرِ نماز
میکدہ میں اسے خشتِ خم صہبا کہیے

مسی آلودہ سرانگشت حسینان لکھیئے
سر پستانِ پریزاد سے مانا کہیے

اپنے حضرت کے کفِ دست کو دل کیجئے فرض
اور اس چکنی سپاری کو سویدا کہیے​

غرضیکہ بیس بائیس پھبتیاں ہیں، اشعار سب کب یاد آتے ہیں، بھول گیا۔

نواب زینت محل کو بادشاہ کے مزاج میں بہت دخل تھا، مرزا جواں بخت اُن کے بیٹے تھے اور باوجودیکہ بہت مرشد زادوں سے چھوٹے تھے، مگر بادشاہ انہی کی ولیعہدی کے لئے کوشش کر رہے تھے، جب اُن کی شادی کا موقع آیا تو بڑی دھوم کے سامان ہوئے۔ مرزا نے یہ سہرا کہہ کر حضور میں گزرانا۔

سہرا

خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا

کیا ہی اس چاند سے مکھڑے پہ بھلا لگتا ہے
ہے ترے حسنِ دل افروز کا زیور سہرا

سر پر چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرف کلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے ترا لمبر سہرا

ناؤ بھر کر ہی پروئے گئے ہونگے موتی
ورنہ کیوں لائے ہیں کشتی میں لگا کر سہرا

سات دریا کے فراہم کئے ہوں گے موتی
تب بنا ہو گا اس انداز کا گز بھر سہرا

رُخ پہ دولھا کے جو گرمی سے پسینہ ٹپکا
ہے رگ ابر گہر بار سراسر سہرا

یہ بھی اک بے ادبی تھی قبا سے بڑھجائے
رہ گیا آن کے دامن کے برابر سہرا

جی میں اترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں اک چیز
چاہیے پھولوں کا بھی ایک مقرر سہرا

جبکہ اپنے میں سماویں خوشی کے مارے
گوندھے پھولوں کا بھلا پھر کوئی کیونکر سہرا

رُخِ روشن کی دمگ گوہر غلطاں کی چمک
کیوں نہ دکھلائے فروغِ مہ و اختر سہرا

تار ریشم کا نہیں ہے یہ رگِ ابر بہار
لائے گا تاب گرانباری گوہر سہرا

ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرفدار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہدے کوئی بہتر سہرا​

مقطع کو سُن کر حضور کو خیال ہوا کہ اس میں ہم پر چشمک ہے، گویا اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس کے سہرے کے برابر کوئی سہرا کہنے والا نہیں۔ ہم نے شیخ ابراہیم ذوقؔ کو استاد اور ملک الشعرا بنایا ہے، یہ سخن فہمی سے بعید ہے بلکہ طرفداری ہے، چنانچہ اُسی دن استاد مرحوم جس حسبِ معمول حضور میں گئے تو بادشاہ نے وہ سہرا دکھایا کہ استاد دیکھیے، انھوں نے پڑھا اور بموجب عادت کے عرض کی، پیر و مرشد درست، بادشاہ نےکہا کہ اُستاد! تم بھی ایک سہرا کہہ دو، عرض کی، بہت خوب، پھر فرمایا کہ ابھی لکھ دو، اور ذرا مقطع پر بھی نظر رکھنا، استاد مرحوم وہیں بیٹھ گئے۔ اور عرض کیا۔

سہرا

اے جواں بخت مبارک تجھے سر پر سہرا
آج ہے یمن و سعادت کا ترے سر سہرا

آج وہ دن ہے کہ لائے درِ انجم سے فلک
کشتی زر میں مہِ نو کی لگا کر سہرا

یہ کہے صلّ علیٰ وہ کہے سبحان اللہ
دیکھے مکھڑے پہ جو تیرے مہ و اختر سہرا

تا بنی اور بنے میں رہے اخلاص بہم
گوندھیے سورۃ اخلاص کو پڑھ کر سہرا

دھوم ہے گلشن آفاق میں اس سہریکی
گائیں مرغانِ نواسنج نہ کیونکر سہرا

روئے فرخ پہ جو ہیں تیرے برستے انوار
تار بارش سے بنا ایک سراسر سہرا

تابشِ حُسن سے مانند شعاعِ خورشید
رُخِ پر نور پہ ہے تیرے منّور سہرا

ایک کو ایک پہ تزئیں ہے دمِ آرائش
سر پر دستار ہے دستار کے اوپر سہرا

اک گہر بھی نہیں صد کان گہر میں چھوڑا
تیرا بنوایا ہے لے لے کے جو گوہر سہرا

پھرتی خوشبو سے ہے اتراتی ہوئی باد بہار
اللہ اللہ رے پھولوں کا معطر سہرا

سر پہ طرّہ ہے مزین تو گلے میں بدّھی
کنگنا ہاتھ میں زیبا ہے تو منھ پر سہرا

رونمائی میں تجھے دے مہِ خورشید فلک
کھول دے رُخ کو جو تو منھ سے اٹھا کر سہرا

کثرتِ تار نظر سے ہے تماشائیوں کے
دمِ نظارہ ترے روئے نکو پر سہرا

درِّ خوش آب مضامیں سے بنا کر لایا
واسطے تیرے ترا ذوقؔ شناگر سہرا

جس کو دعوئے ہے سخن کا یہ سنا دے اس کو
دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا​

اربابِ نشاط حضور میں ملازم تھیں، اسی وقت انھیں ملا، شام تک شہر کی گلی گلی، کوچہ کوچہ میں پھیل گیا، دوسرے ہی دن اخباروں میں مشتہر ہو گیا۔ مرزا بھی بڑے ادا شناس اور سخن فہم تھے، سمجھے تھے کچھ اور ہو گیا کچھ اور، یہ قطعہ حضور میں گزرانا :

قطعہ در معذرت

منظور ہے گزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیانِ حُسنِ طبیعت نہیں مجھے

سو (۱۰۰) برس سے ہے پیشہ آبا سپہگری
کچھ شاعری زریعہ عزت نہیں مجھے

آزادہ رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاہ و منصت و ثروت نہیں مجھے

اُستاد شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال
یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے

جامِ جہاں نما ہے شہنشاہ کا ضمیر
سوگند اور گواہ کی حاجت نہیں مجھے

میں کون ہوں اور ریختہ، ہاں اس سے مُدّعا
جز انبساط خاطِر حضرت نہیں مجھے

سہرا لکھا گیا زرہِ امتشالِ امر
دیکھا کہ چارہ غیر اطاعت نہیں مجھے

مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے

روئے سخن کسی کی طرف ہو تو رو سیاہ
سودا نہیں، جنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے

صادق ہوں اپنے قول کا غالبؔ خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے​

کلکتہ میں بہت سے اہل ایران اور بڑے بڑے علما و فضلا موجود تھے۔ مگر افسوس ہے کہ وہاں مرزا کے کمال کے لئے ایسی عظمت نہ ہوئی جیسی کہ ان کی شان کے لئے شایاں تھی، حقیقت میں ان کی عظمت ہونی چاہیے تھی، اور ضرور ہوتی، مگر ایک اتفاقی پیچ پڑ گیا۔ اس کی داستان یہ ہے کہ مرزا نے کسی جلسہ میں ایک فارسی غزل پڑھی، اس میں ایک لفظ پر بعض اشخاص نے اعتراض کیا، اور اعتراض بموجب اس قاعدہ کے تھا جو مرزا قتیل نے ایک اپنے رسالہ میں لکھا ہے۔ مرزا نے سن کہا کہ قتیل کون ہوتا ہے؟ اور مجھے مرزا قتیل سے کام کیا؟ ایک فرید آباد کا کھتری تھا، میں اہل زبان کے سوا کسی کو نہیں سمجھتا، وہ لوگ اکثر مرزا قتیل کے شاگرد تھے، اس لئے آئین مہمان نوازی سے آنکھیں بند کر لیں اور جوش و خروش خاص و عام میں پیدا ہوا۔ مرزا کو تعجب ہوا۔ اور اس خیال سے کہ یہ فتنہ کسی طرح فرو ہو جائے، سلامت روی کا طریقہ اختیار کر کے ایک مثنوی لکھی اور اس میں کچھ شک نہیں کہ داد سخن دری کی دی ہے، معرکہ کا سارا ماجرا نہایت خوبی کے ساتھ نظم میں ادا کیا، اعتراض کو سند سے دفع کیا، اپنی طرف انکسار مناسب کے ساتھ معذرت کا حق پورا کیا، لیکن زیادہ افسوس یہ ہے کہ جب مثنوی حریفوں کے جلسہ میں پڑھی گئی تو بجائے اس کے کمال کو تسلیم کرتے یا مہمان سے اپنی زیادتیوں کا عذر کرتے، ایک نے عمداً کہا کہ اس مثنوی کا نام کیا ہے؟ معلوم ہوا کہ باد مخالف، دوسرے نے گلستاں کا فقرہ پڑھا یکے از صلحا را باد مخالف در شکم پیچیدا اور سب نے ہنس دیا۔

لطیفہ : دلی میں مشاعرہ تھا، مرزا نے اپنی فارسی غزل پڑھی، مفتی صدر الدین خاں صاحب اور مولوی امام بخش صہبائی جلسہ میں موجود تھے، مرزا صاحب نے جس وقت یہ مصرع پڑھا۔

ع : بوادی کہ دراں خضر را عصا خفت است​

مولوی صہبائی کی تحریک سے مفتی صاحب نے فرمایا کہ عصا خفت است میں کلام ہے۔ مرزا صاحب نے کہا کہ حضرت! میں ہندی نژاد ہوں، میرا عصا پکڑ لیا، اس شیرازی کا عصا نہ پکڑا گیا۔

ع: دے بجملہ اول عصائے شیخ بہ خُفت​

انھوں نے کہا کہ اصل محاورہ میں کلام نہیں، کلام اس میں ہے کہ مناسب مقام ہے یا نہیں۔

لطیفہ : ایک دفعہ مرزا بہت قرض دار ہو گئے۔ قرضخواہوں نے نالش کر دی، جوابدہی میں طلب ہوئے، مفتی صاحب کی عدالت تھی، جس وقت پیشی میں گئے، یہ شعر پڑھا۔

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایکدن​

مرزا صاحب کو ایک آفت ناگہانی کے سبب سے چند روز جیل خانہ میں اس طرح رہنا پڑا کہ جیسے حضرت یوسف کو زندان مصر میں، کپڑے میلے ہو گئے، جوئیں پڑ گئی تھیں، ایک دن بیٹھے ان میں سے جوئیں چُن رہے تھے، ایک رئیس وہیں عیادت کو پہونچے۔ پوچھا کیا حال ہے، آپ نے یہ شعر پڑھا :

ہم غمزدہ جس دن سے گرفتار بلا ہیں

کپڑوں میں جوئیں بخیوں کے ٹانکوں سے سوا ہیں

جس دن وہاں سے نکلنے لگے اور لباس تبدیل کرنے کا موقع آیا تو وہاں کا کرتہ وہیں پھاڑ کر پھینکا اور یہ شعر پڑھا۔

ہائے اس چارہ گر کپڑے کی قسمت غالبؔ

جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا​

حسین علی خاں چھوٹا لڑکا ایک دن کھیلتا کھیلتا آیا کہ دادا جان مٹھائی منگا دو۔ آپ نے فرمایا کہ پیسے نہیں، وہ صندوقچہ کھول کر اِدھر اُدھر پیسے ٹٹولنے لگا، آپ نے فرمایا۔

درم دوام اپنے پاس کہاں

چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں​

پنشن سرکار سے ماہ بماہ ملتی تھی، بغاوت دہلی کے بعد حکم ہوا کہ ششماہی ملا کرے، اس موقع پر ایک دوست کو لکھتے ہیں۔

سِم ہے مردہ کی چھ ماہی ایک

خلق کا ہے اس چلن پہ مدار


مجھکو دیکھو کہ ہوں بقید حیات

اور چھ ماہی ہو سال میں دوبار​

مگر یہ دو شعر حقیقت میں ایک قصیدے کے ہیں، جس کی بدولت بادشاہ دہلی دربار ششماہی تنخواہ کے لئے ماہواری کا حکم حاصل کیا تھا۔ فارسی کے قصائد میں بھی اس قسم کے عزل و نصب انھوں نے اکثر کئے ہیں اور یہ کچھ عجیب بات نہیں، انوری وغیرہ اکثر شعرا نے ایسا کیا ہے۔

لطیفہ : مولوی فضل حق صاحب مرزا کے بڑے دوست تھے، ایک دن مرزا ان کی ملاقات کو گئے، اُن کی عادت تھی کہ جب کوئی بے تکلف دوست آیا کرتا تو خالق باری کا یہ مصرع پڑھا کرتے تھے۔

ع : "بیا برادر آؤ رے بھائی"​

چنانچہ مرزا صاحب کی تعظیم کو اُٹھ کھڑے ہوئے اور یہی مصرع کہہ کر بٹھایا، ابھی بیٹھے ہی تھے کہ مولوی صاحب کی رنڈی بھی دوسرے دالان سے اُٹھ کر پاس آن بیٹھی، مرزا نے فرمایا، ہاں صاحب وہ دوسرا مصرع بھی فرما دیجیئے۔

ع "بنبنشیں مادر بیٹھ ری مائی"​

لطیفہ : مرزا کی قاطع برہان کے بہت شخصوں نے جواب لکھے ہیں، اور بہت زبان درازیاں کی ہیں۔ کسی نے کہا کہ حضرت آپ نے فلاں شخص کی کتاب کا جواب نہ لکھا، فرمایا بھائی اگر کوئی گدھا تمھارے لات مارے تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟

لطیفہ : بہن بیمار تھیں، آپ عیادت کو گئے۔ پوچھا کیا حال ہے۔ وہ بولیں مرتی ہوں، قرض کی فکر ہے کہ گردن پر لئے جاتی ہوں۔ آپ نے کہا کہ بُوا! بھلا یہ کیا فکر ہے! خدا کے ہاں کیا مفتی صدر الدین خاں بیٹھے ہیں جو ڈگری کر کے پکڑوا بلائیں گے۔

لطیفہ : ایک دن مرزا کے شاگرد رشید نے آ کر کہا کہ حضرت آج میں خسرو کی قبر پر گیا، مزار پر کھرنی کا درخت ہے۔ اس کی کھرنیاں میں نے خوب کھائیں۔ کھرنیوں کا کھانا تھا ، کہ گویا فصاحت و بلاغت کا دروازہ کھل گیا، دیکھئے تو میں کیسا فصیح ہو گیا۔ مرزا نے کہا کہ راے میاں تین کوس کیوں گئے، میرے پچھواڑے کے پیپل کی پیپلیاں کیوں نہ کھا لیں، چودہ طبق روشن ہو جاتے۔

لطیفہ : بعض بعض (یہ لطیفہ کئی شاعروں کی طرف منسوب ہے) شاگردوں نے مرزا سے کہا کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مدح میں بہت قصیدے اور بڑے بڑے زور کے قصیدے کہے، صحابہ میں سے کسی کی تعریف میں کچھ نہ کہا؟ مرزا نے ذرا تامل کر کے کہا کہ اُن میں کوئی ایسا دکھا دیجیے تو اس کی تعریف بھی کہدوں۔ مرزا صاحب کی شوخی طبع ہمیشہ اُنھیں اُس رنگ میں شور بور رکھتی تھی، جس سے ناواقف لوگ انھیں الحاد کی تہمت لگائیں اور چونکہ یہ رنگ ان کی شکل و شان پر عجب معلوم ہوتا تھا، اس لئے اُن کے دوست ایسی باتوں کو سُن کر چونکتے تھے، جوں جوں وہ چونکتے تھے وہ اور بھی زیادہ چھینٹے اُڑاتے تھے۔ ان کی طبیعت سرور شراب کی عادی تھی، لیکن اسے گناہ الہٰی سمجھتے تھے اور یہ بھی عہد تھا کہ محرم میں ہرگز نہ پیتے تھے۔

لطیفہ : غدر کے چند روز بعد پنڈت موتی لال کہ ان دنوں میں مترجم گورنمنٹ پنجاب کے تھے، صاحب چیف کمشنر پنجاب کے ساتھ دلی گئے۔ اور حُّب الوطن اور محبت فن کے سبب سے مرزا صاحب سے ملاقات کی۔ اُن دنوں میں پنشن بند تھی۔ دربار کی اجازت نہ تھی۔ مرزا بہ سبب دل شکستگی کے شکوہ شکایت سے لبریز ہو رہے تھے۔ اثنائے گفتگو میں کہنے لگے کہ عمر بھر ایک دن شراب نہ پی ہو تو کافر اور ایک دفعہ بھی نماز پڑھی ہو تو مسلمان نہیں۔ پھر میں نہیں جانتا کہ مجھے سرکار نے باغی مسلمانوں میں کس طرح شامل سمجھا۔

لطیفہ : بھوپال سے ایک شخص دلی کی سیر کو آئے۔ مرزا صاحب کے بھی مشتاق ملاقات تھے، چنانچہ ایک دن ملنے کو تشریف لائے۔ وضع سے معلوم ہوتا تھا کہ نہایت پرہیزگار اور پارسا شخص ہیں، اُن سے بہ کمال اخلاق پیش آئے مگر معمولی وقت تھا، بیٹھے سرور کر رہے تھے، گلاس اور شراب کا شیشہ آگے رکھا تھا، اُس بے چارہ کو خبر نہ تھی کہ آپ کو یہ شوق بھی ہے۔ انھوں نے کسی شربت کا شیشہ خیال کر کے ہاتھ میں اُٹھا لیا۔ کوئی شخص پاس سے بولا کہ جناب یہ شراب ہے۔ بھوپالی صاحب نے جھٹ شیشہ ہاتھ سے رکھ دیا اور کہا میں نے تو شربت کے دھوکے میں اُٹھایا تھا۔ مرزا نے مسکرا کر ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ زہے نصیب دھوکے میں نجات ہو گئی۔

لطیفہ : ایک دفعہ رات کو انگنائی میں بیٹھے تھے، چاندنی رات تھی۔ تارے چھٹکے ہوئے تھے۔ آپ آسمان دیکھ کر فرمانے لگے کہ جو کام بے صلاح و مشورہ ہوتا ہے بے ڈھنگا ہوتا ہے۔ خدا نے ستارے آسمان پر کسی سے مشورہ کر کے نہیں بنائے، جبھی بکھرے ہوئے ہیں، نہ کوئی سلسلہ نہ زنجیر نہ بیل نہ بوٹہ۔

لطیفہ : ایک مولوی صاحب جن کا مذہب سنت جماعت تھا۔ رمضان کے دنوں میںملاقات کو آئے۔ عصر کی نماز ہو چکی تھی، مرزا نے خدمتگار سے پانی مانگا، مولوی صاحب نے کہا، حضرت غضب کرتے ہیں۔ رمضان میں روزے نہیں رکھتے، مرزا نے کہا، سُنّی مسلمان ہوں چار گھڑی دن سے روزہ کھول لیا کرتا ہوں۔

لطیفہ : رمضان کا مہینہ تھا، آپ نواب حسین مرزا کے ہاں بیٹھے تھے، پان منگا کر کھایا، ایک صاحب (مرزا صفدر علی صاحب مرحوم مرزا عسکری مرحوم کے پوتے تھے جن کا امامباڑہ ابھی تک نٹوں کے کوچہ میں کھنڈر پڑا ہے؟) فرشہ سیرت نہایت متقی و پرہیز گار اس وقت حاضر تھے، انھوں نے متعجب ہو کر پوچھا کہ قبلہ آپ روزہ نہیں رکھتے، مسکرا کر بولے، شیطان غالب ہے۔

یہ لطیفہ اہل ظرافت میں پہلے سے بھی مشہور ہے کہ عالمگیر کا مزاج سرمد سے مکدر تھا، اس لئے ہمیشہ اس کا خیال رکھتے تھے، چنانچہ قاضی قوی جو اس عہد میں قاضی شہر تھا، اس نے ایک موقع پر سرمد کو بھنگ پیتے ہوئے جا پکڑا، اول بہت سے لطائف و ظرافت کے ساتھ جواب سوال ہوئے، آخر جب قاضی نے کہا کہ نہیں! شرع کا حکم اسی طرح ہے کیوں حکیم الہٰی کے برخلاف باتیں بناتا ہے، اس نے کہا کہ کیا کروں شیطان قوی ہے۔

لطیفہ : جاڑے کا موسم تھا۔ ایک دن نواب مصطفٰے خاں صاحب مرزا کے گھر آئے، آپ نے ان کے آگے شراب کا گلاس بھر کر رکھ دیا، وہ ان کا منھ دیکھنے لگے۔ آپ نے فرمایا لیجئے، چونکہ وہ تائب ہو چکے تھے، انھوں نے کہا کہ میں نے تو توبہ کی، آپ متعجب ہو کر بولے کہ ہیں جاڑے میں بھی؟

لطیفہ : ایک صاحب نے اُن کے سنانے کو کہا کہ شراب پینا سخت گناہ ہے، آپ نے ہنس کر کہا بھلا جو پئے تو کیا ہوتا ہے، انھوں نے کہا کہ ادنیٰ بات یہ ہے کہ دعا نہیں قبول ہوتی۔ مرزا نے کہا کہ آپ جانتے ہیں شراب پیتا کون ہے؟ اول تو وہ کہ ایک بوتل اولڈ ٹام کی، باسامان سامنے حاضر ہو، دوسرے بے فکری، تیسرے صحت، آپ فرمائیے کہ جسے یہ سب کچھ حاصل ہو اُسے اور چاہیے کیا، جس کے لئے دعا کرے۔

مرزا صاحب کو مرنے سے ۲۰ برس پہلے اپنی تاریخ فوت کا ایک مادہ ہاتھ آیا، وہ بہت بھایا اور اُسے موزوں فرمایا۔

تاریخ فوت

منکہ ہاشم کہ جاوداں ہاشم
چوں نظیری نماند طالب مُرد

در بپر سند در کدا میں سال
مرد غالب، بگو کہ غالب مُرد​

اس حساب سے ۱۲۷۷ھ میں مرنا چاہیے تھا، اسی سال شہر میں سخت وبا آئی، ہزاروں آدمی مر گئے، ان دنوں دلی کی بربادی کا غم تازہ تھا، چنانچہ میر مہدی صاحب کے جواب میں آپ فرماتے ہیں، وبا کو کیا پوچھتے ہو، قدر انداز قضا کے ترکش میں یہی ایک تیر باقی تھا، قتل ایسا عام لوٹ ایسی سخت، کال ایسا پڑا، وبا کیوں نہ ہو۔ لسان الغیب نے دس (۱۰) برس پہلے فرمایا ہے۔

ہو چکیں غالؔ بلائیں سب تمام

ایک مرگ ناگہانی اور ہے

(اپنے تئیں لسان الغیب قرار دیا۔)

میاں ! ۱۲۷۷ھ کی بات غلط نہ تھی، مگر میں نے وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھا، واقعی اس میں میری کسر شان تھی، بعد رفع فساد سمجھ لیا جائے گا!

غزلیں ​

شمار سجہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
تماشائے بیک کف برون صد دل پسند آیا

بہ فیض بیدلی نومیدیٰ جاوید آساں ہے
کشائش کو ہمار عقدہ مشکل پسند آیا

ہوائے سبز گل آئینہ بے مہری قاتل
کہ انداز بخوں غلطیدنِ بسمل پسند آیا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*


دہر میں نقش وفا وجہ تسلّی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہ معنی نہ ہوا

سبزہ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا

میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگرمرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

دل گزرگاہ خیال مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادہ سر منزلِ تقویٰ نہ ہوا

ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کش گلبانگ تسلی نہ ہوا

کس سے محرومی قسمت کی شکایت کیجیے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہوا

مر گیا صدمہ یک جنبش لب سے غالبؔ
ناتوانی سے ھریف دمِ عیسٰے نہ ہوا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں
یہ سوئے ظن ہے ساقی کوثر کے باب میں

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں

جان کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دم سماع
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں

رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

اتنا ہی مجھکو اپنی حقیقت سے بعد ہے
جتنا کہ وہم غیر سے ہوں پیچ و تاب میں

اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیران ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

ہے مشتمل نمود صور پر وجود سحر
یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں

شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یوں حجاب میں

آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

ہیں غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خراب میں ہنوز جو جاگےہیں خواب میں

غالبؔ ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغول حق ہوں بندگیِ بوتراب میں

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*


آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

دامِ ہر حلقہ میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

عاشقی صبر طلب، اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک

یک نظر بیش نہیں فرصتِ ہستی غافل
گرمی بزم ہے اک رقصِ شرر ہونے تک

غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

ترے وعدہ پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے تری تیر نیمکش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بُری بلا ہے
مجھے بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا غمِ روزگار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رُسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اُٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا بُرا نہ ہوا

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا گِلا نہ ہوا

ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

کتنے شیریں ہے تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

ہے خبر گم اُن کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

زخم گر دب گیا لہو نہ تھما
کام گر رک گیا روا نہ ہوا

رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے
لے کے دل دلستاں روا نہ ہوا

کچھ تو کہئے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گھر نہیں آتی

داغ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو می مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
اس سے میرا مہ خورشید جمال اچھا ہے

بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
جام جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے

بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے

انکے دیکھے سے جو آ جاتی ہے مجھ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

ہم سخن تیشہ نے فرہاد کو شیریں سے کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے

قطرہ دریا میں جو ملجائے تو دریا ہو جائے
کام اچھا ہے وہ جس کا کہ مآل اچھا ہے

خظر سلطان کو رکھے خالق اکبر سرسبز
شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچھا ہے

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*


منظور تھی یہ شکل تجلٰے کو نور کی
قسمت کُھلی ترے قد و رُخ کے ظہور کی

اک خونچکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں
پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حُور کی

واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمھاری شرابِ طہور کی

لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل کہ کیوں اُٹھا
گویا ابھی سُنی نہیں آواز صُور کی

آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج
اُڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی

گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اُسنے شکایت ضرور کی

غالبؔ گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


نوید امن ہے بیداد دوست جاں کیلئے
رہے نہ طرز ستم کوئی آسماں کیلئے

بلا سے گر مژہ یار تشنہ خوں ہے
رکھوں کچھ اپنی بھی مژگاں خونفشاں کیلئے

وہ مردہ ہم میں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمر جاوداں کیلئے

رہا بلا میں بھی میں مبتلائے آفت رشک
بلائے ضان ہے ادا تیری اک جہاں کیلئے

فلک نہ دور رکھ اس سے مجھے کہ میں ہی نہیں
دراز دستی قاتل کے امتحاں کیلئے

سنال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کیلئے

گدا سمجھ وہ چپ تھا مری جو شامت آئے
اُٹھا اور اُٹھ کے قدم میں نے پاسباں کیلئے

بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کیلئے

دیا ہے خلق کو بھی تا اُسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کیلئے

زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کیلئے

نصیر دولت و دیں اور معیں ملت و ملک
بنا ہے چرخِ بریں جس کی آستاں کیلئے

زمانہ عہد میں اُس کی ہے محوِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کیلئے

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کیلئے

ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کیلئے

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*