Jump to content

آب حیات/مرزا فاخر مکین

From Wikisource

اصل میں کشمیری تھے۔ اول قنوت حسین خاں کشمیری سے اصلاح لیتے تھے۔ پھر عظیمائے کشمیری کے شاگرد ہوئے۔ ان کے کمال میں کلام کی جگہ نہیں، صحت الفاظ اور تحقیق لغت میں بڑی کوشش کی۔ دیوان نے رواج نہیں پایا، مگر اصل اشعار متفرق بیاضوں میں ہیں۔ یا وہ مشہور ہیں کہ انھوں نے سودا کے حق میں کہے۔ سوداؔ نے تضمین کر کے انہی پر اُلٹ دیئے۔ کچھ اشعار سوداؔ نے عبرۃ الغافلین میں اعتراضوں کی ذیل میں لکھے۔ بہرحال معلوم ہوتا ہے کہ کیفیت سے خالی نہ تھے۔ زمانہ نے بھی پورا حق اِن کی قدردانی کا ادا کیا۔ سینکڑوں شاگرد غریب اور تونگر لکھنؤ اور اطراف میں ہو گئے۔ پیشہ توکل تھا اور بے دماغی سے اُسے رونق دیتے تھے۔

نقل ۔ مولوی غلام ضامن صاحب رتبے کے فاضل تھے، ایک دن غزل لے کر گئے کہ مجھے شاگرد کیجیے اور اصلاح فرمائیے۔ مرزا فاخر نے ٹال دیا۔ مولوی صاحب نے پھر کہا، انھوں نے پھر انکار کیا اور کج خلقی کرنے لگے جو عجز و انکسار کے حق تھے، سب مولوی صاحب نے ادا کئے۔ ایک نہ قبول ہوا۔ ناچار یہ شعر پڑھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

مرزا یکن مانشود چوں بکینِ ما

کین است جزوِ اعظم مرزا مکینِ ما​

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ابتداء سوداؔ کی طرف سے کم ہوتی تھی۔ ہاں کوئی چھیڑ دیتا تھا، تو پھر یہ بھی حد سے پرے پہنچا دیتے تھے۔ چنانچہ میر ضاحک مرحوم کے حال سے معلوم ہو گا۔ (دیکھو صفحہ 621)۔

آصف الدولہ ایک دفعہ شکار کو گئے۔ خبر آئی کہ نواب نے بھیلوں کے جنگل میں شیر مارا۔ باوجویکہ ہمیشہ انعام و اکرام کے انباروں سے زیربار تھے مگر فوراً کہا :

یارو یہ ابنِ نجم پیدا ہوا دوبارہ

شیرِ خدا کو جس نے بھیلوں کے بن میں مارا​

نواب کو بھی خبر ہوئی، جب پھر کر آئے تو خود شکایت دوستانہ کے طور پر کہا کہ مرزا تم نے ہم کو شیرِ خدا کا قاتل بنایا؟ ہنس کر کہا کہ جناب عالی! شیر تو اللہ ہی کا تھا نہ حضور کا نہ فدوی کا۔

لطیفہ : آصف الدولہ مرحوم کی انا کی لڑکی خورد سال تھی، نواب فرشتہ سیرت کی طبیعت میں ایک تو عموماً تحمل اور بے پروائی تھی، دوسرے اس کی ماں کا دودھ پیا تھا، نازبرداری نے اِس کی شوخی کو شرارت کر دیا۔ ایک دن دوپہر کا وقت تھا، نواب سوئے تھے، ایسا غل مچایا کہ بدخوات ہو کر جاگ اُٹھے، بہت جھنجھلائے اور خفا ہوتے ہوئے باہر نکل آئے، سب ڈر گئے کہ آج نواب کو غصہ آیا ہے خدا خیر کرے، باہر آ کر حکم دیا کہ مرزا کو بلاؤ، مرزا اسی وقت حاضر ہوئے، فرمایا کہ بھئی مرزا! اس لڑکی نے مجھے بڑا حیران کیا ہے، تم اس کی ہجو کہہ دو، یہاں تو ہر وقت مصالحہ تیار تھا، اسی وقت قلمدان لے کر بیٹھ گئے اور مثنوی تیار کر دی کہ ایک شعر اس کا لکھتا ہوں :

لڑکی وہ لڑکیوں میں جو کھیلے

نہ کہ لونڈوں میں جا کے ڈنڑ پیلے​

بعض بزرگوں نے یہ بھی سُنا ہے کہ دلی میں نالہ پر ایک دکان میں بھٹیاری رہتی تھی، وہ آپ بھی لڑاکا تھی، مگر لڑکی بھی اس سے سوا چنچل ہوئی، آتے جاتے جب دیکھتے لڑتے ہی دیکھتے، ایک دن کچھ خیال آ گیا، اس پر یہ ہجو کہی تھی۔

لطیفہ : شیخ قائم علی ساکن اٹاوہ ایک طباع شاعر تھے، کمال اشتیاق سے مقبول نبی خاں انعام اللہ خاں یقین کے بیٹھے کے ساتھ بہ اِرادہ شاگردی ان کے پاس آئے اور اپنے اشعار سُنائے، آپ نے پوچھا تخلص کیا ہے، کہا اُمیدوار، مسکرائے اور فرمایا :

ہے فیض سے کسی کے شجر اِن کے باردار

اس واسطے کیا ہے تخلص امیدوار ​ (جب عورت حاملہ ہوتی ہے تو عورتوں کے محاورہ میں کہتے ہیں کہ امیدواری ہے یا اللہ کی درگاہ سے امید ہے۔)

بے چارے شرمندہ ہو کر چلے گئے۔ قائمؔ تخلص اختیار کیا اور کسی اور کے شاگرد ہوئے۔ اِن کی طبیعت میں شوخیاں تھیں، وہ حقیقت میں اتنی نہ تھیں جتنا انھیں لوگوں نے خطرناک بنا رکھا تھا، بے شک جو ان سے لڑتا تھا اُسے خوب خراب کرتے تھے مگر اخلاق و انصاف سے خالی نہ تھے۔

نقل : راسخؔ عظیم آبادی کا دیوان میں نے دیکھا ہے، بہت سنجیدہ کلام ہے، پُرانے مشاق تھے اور سب ادھر کے لوگ انھیں استاد مانتے تھے، مرزا کے پاس شاگرد ہونے کو آئے، مرزا نے کہا کوئی شعر سنائیے، انھوں نے پڑھا :

ہوئے ہیں ہم ضعیف اب دیدنی رونا ہمارا ہے

پلک پر اپنی آنسوصبحِ پیری کا ستارا ہے​

مرزا نے اُٹھ کر گلے لگا لیا۔ ایسا ہی معاملہ جرات سے ہوا تھا۔ (دیکھو صفحہ ۲۴۲)۔

لطیفہ : ایک دن میاں ہدایت (ایک مرد متین دیرینہ سال اس زمانہ کے شعرائے معتبر میں سے تھے، خواجہ میر دردؔ کے شاگرد تھے) ملاقات کو آئے، بعد رسوم معمولی کے آپ نے پوچھا کہ فرمائیے میاں صاحب آج کل کیا شغل رہتا ہے، انھوں نے کہا افکارِ دنیا سے فرصت نہیں دیتے، طبیعت کو ایک مرض یاوہ گوئی کا لگا ہوا ہے، گاہے بگاہے غزل کا اتفاق ہو جاتا ہے، مرزا ہنس کر بولے کہ غزل کا کیا کہنا، کوئی ہجو کہا کیجیے، بیچارے نے حیران ہو کر کہا ہجو کس کی کہوں؟ آپ نے کہا، ہجو کو کیا چاہیے، تم میری ہجو کہو، میں تمھاری ہجو کہوں۔

لطیفہ : ایک ولایتی نے کہ زمرہ اہل سیف میں معزز ملازم تھا، عجب تماشا کیا، یعنی سودا نے اس کی ہجو کہی اور ایک محفل میں اس کے سامنے ہی پڑھنی شروع کر دی۔ ولایتی بیٹھا سنا کیا۔ جب ہجو ختم ہوئی۔ اٹھ کر سامنے آ بیٹھا، اور ان کی کمر پکڑ کر مسلسل و متواتر گالیوں کا جھاڑ باندھ دیا۔ انھیں بھی ایسا اتفاق آج تک نہ ہوا تھا۔ حیران ہو کر کہا کہ خیر باشد؟ جناب آغا اقسام ایں مقالات شایان شان شما نیست۔ ولایتی نے پیش قبض کمر سے کھینچ کر ان کے پیٹ پر رکھدی اور کہا نظم خودت گفتی حالا ایں نثر را گوش کن، ہر چہ تو گفتی نظم بود، نظم آزمانمے آید، مابہ نثر ادا کردیم۔

لطیفہ : سید انشاء کا عالم نوجوانی تھا۔ مشاعرہ میں غزل پڑھی :

جھڑکی سہی ادا سہی چین جبیں سہی

سب کچھ سہی پر ایک نہیں کی نہیں سہی​

جب یہ شعر پڑھا :

گر نازنیں کہے سے بُرا مانتے ہو تم

میری طرف تو دیکھئے میں نازنیں سہی​

سوداؔ کا عالم پیری تھا، مشاعرہ میں موجود تھے، مسکرا کر بولے "دریں چہ شک"۔

نقل : ایک دن سودا مشاعرہ میں بیٹھے تھے۔ لوگ اپنی اپنی غزلیں پڑھ رہے تھے۔ ایک شریف زادے کہ ۱۲، ۱۳ برس کی عمر تھی، اس نے غزل پڑھی، مطلع تھا :

دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینہ کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے​

گرمی کلام پر سوداؔ بھی چونک پڑے۔ پوچھا یہ مطلع کس نے پڑھا؟ لوگوں نے کہا حضرت یہ صاحبزادہ ہے۔ سودا نے بھی بہت تعریف کی۔ بہت مرتبہ پڑھوایا اور کہا کہ میاں لڑکے جوان تو ہوتے نظر نہیں آتے۔ خدا کی قدرت انہی دنوں میں لڑکا جل کر مر گیا۔

جبکہ فخر شعرائے ایران شیخ علی حزیں وارد ہندوستان ہوئے پوچھا کہ شعرائے ہند میں آج کل کوئی صاحب کمال ہے؟ لوگوں نے سودا کا نام لیا، اور سوداؔ خود ملاقات کو گئے۔ شیخ کی عالی دماغی اور نازک مزاجی شہرہ آفاق ہے۔ نام نشاں پوچھ کر کہا کہ کچھ اپنا کلام سناؤ۔ سودا نے کہا :

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں​

شیخ نے کہا کہ تڑپے چہ معنی دارد۔ سوداؔ نے کہا کہ اہل ہند طپیدن را تڑپنا مے گوئید۔ شیخ نے پھر شعر پڑھوایا اور زانوں پر ہاتھ مار کر کہا کہ مرزا رفیع قیامت کر دی۔ یک مرغ قبلہ نما باقی بود آ نراہم نگذاشتی، یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور بغلگیر ہو کر پاس بٹھایا مگر بعض اشخاص کی روایت ہے کہ شیخ نے کہا :

"در پوچ گویانِ ہند بد نیستی"​

لطیفہ : خان آرزو کے مکان پر مشاعرہ ہوتا تھا۔ سوداؔ ان دنوں نوجوان تھے۔ مطلع پڑھا :

آلودہ قطراتِ عرق دیکھ جبیں کو

اختر پڑے جھانکیں ہیں فلک پر سے زمیں کو​

یا تو لاعلمی یا ان کی آتشِ بیانی کے ڈر سے کوئی نہ بولا۔ مگر خان آرزو (دیکھو صفحہ ۱۴۸) جن کی دایہ قابلیت کے دودھ سے مظہر، سوداؔ، میرؔ، دردؔ وغیرہ نوجوانوں نے پرورش پائی ہے، انھوں نے فوراً یہ شعر پڑھا کہ قدسی کے مطلع پر اشارہ ہے :

شعر سوداؔ۔ حدیث قدسی ہے

چاہیے لکھ رکھیں فلک پہ ملک


آلودہ قطراتِ عرق دیدہ جبیں را

اختر ز فلک مے نگرد روئے زمین را​

سوداؔ بے اختیار اٹھ کھڑے ہوئے۔ خاں صاحب کے گلے سے لپٹ گئے اور اس شکریہ کے ساتھ خوشی ظاہر کی گویا حقیقتاً خاں صاحب نے ان کے کلام کو مثل حدیث قدسی تسلیم کیا ہے۔ ان کا ایک اور شعر ایسا ہی ہے :

بہار بے سپرِ جام دیار مے گذرد

نسیم تیرسی، سینہ کے پار گذرے ہے​

فارسی میں کوئی استاد کہتا ہے :

بہار بے سپرِ جام دیار مے گذرد

نسیم ہمچو خدنگ از کتار مے گذرو​

مگر اہل کا قول ہے کہ ایسی صورت خاص کو سرقہ نہیں ترجمہ سمجھنا چاہیے، کیونکہ شعر کو شعر ہی میں ترجمہ کرنا بھی ایک دشوار صنعت ہے۔ قطع نظر اسکے اسی مطلع کے بعد اور اشعار کو دیکھو کیا موتی پروئے ہیں۔ اور کلیات ایک دریا ہے کہ اقسام جواہر سے بھرا ہوا ے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس رتبہ کا شاعر ایک مطلع کا محتاج تھا۔ اس لیے چرا لیا ہے۔ ابو الفضل نے ایک مراسلے میں لکھا ہے :

ولدالز ناست حاسد منم آنکہ طالع من

دلدالز ناکش آمد چو ستارہ یمانی​

یہ شعر قصائد نظامی میں موجود ہے۔ اور اسی مضمون کو عربی میں متنبی کہتا ہے :

و تنکِرُ موتھم وَ اَنَا سُھَل

طَلَعتُ لموتِ اَولا ولزناءِ​

خود سودا سے زبان بزبان روایت پہنچی ہے کہ غزل فارسی کی ان کی ہجو میں مولوی ندرت کشمیری نے کہی اور مرزا نے اسے مخمس کر کے اسی پر الٹ دیا۔ اسی کے مطلع پر خان آرزو نے مصرع لگا دیئے تھے۔ باقی تمام مخمس مرزا کا ہے :

شعر ناموزوں سے تو بہتر ہے کہنا ریختہ

کب کہا میں قتل کر مضموں کسی کا ریختہ

بے حیائی ہے یہ کہنا سن کے میرا ریختہ

خون معنے تا رفیع بادہ پیما ریختہ

آبروئے ریختہ از جوش سوداؔ ریختہ​

نقل : معتبر لوگوں سے سنا ہے کسی شخص نے سودا سے پوچھا۔ بلبل مذکر ہے یا مؤنث، مسکرا کر بولے کہ نوع انسان میں ایک ہو تو مرد سے عورت ہو جاتی ہے۔ لفظ کو دیکھو (اب تو ڈبل تانیث ہو گئی۔ اب بھی نہ مؤنث ہو گی۔) دو موجود ہیں، لیکن تعجب ہے کہ انھوں نے ایک جگہ مذکر بھی باندھا ہے۔ چنانچہ غزل ہے اثر لگا کہنے چشم تر لگا کہنے، تار نظر لگا کہنے، اس میں کہتے ہیں کہ :

سُنے ہے مُرغِ چمن کا تو نالہ اے صیاد

بہار آنے کی بلبل خبر لگا کہنے​

اکثر اہلِ لکھنؤ اب مذکر باندھتے ہیں۔ چنانچہ سرورؔ کا شعر (دیکھو صفحہ ۲۶۴ – ۲۶۵) ہے :

کرے گا تو مرے نالوں کی ہمسری بلبل

شعور اتنا تو کر جا کے جانور پیدا

آتشؔ - مصرعہ : سیر چمن کو چلے بُلبل پکارتے ہیں

رندؔ - مصرعہ : جانور کا جو ہوا شوق تو پالے بلبل​

مگر حق یہ ہے کہ اس وقت تک تذکیر و نانیث لفظوں کی مقرر نہیں ہوئی تھی۔ بہت سے الفاظ ہیں کہ مرزا اور میر صاحب نے انھیں مذکرباندھا ہے۔ بعد ان کے سید انشاء، جراتؔ، مصفحیؔ سے لے کر آج تک سب مؤنث باندھتے چلے آتے ہیں۔ چنانچہ میر صاحب کی طرح میرزائے موصوف بھی فرماتے ہیں :

جانؔ :
کہا طبیب نے احوال دیکھ کر میرا
کہ سخت جان ہے سودا کا آہ کیا کیجیئے​

دیدؔ :
بتاں کا دید میں کرتا ہوں شیخ جسدن سے
حلال تب سے ہے مے موبمو مرے دل پر​

میرؔ :
کریں شمار بہم دل کے یاد داغوں کا
تو آ کہ سیر کریں آج دل کے باغوں کا​

میرؔ :
ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
موسٰے نہیں جو سیر کروں کوہ طور کا​

بسکہ پونچھوں ہوں میں اپنی چشم خوں آلود کو
جامہ کا ہر ایک تختہ سیر ہے گلزار کا​

جب مرزا رفیع لڑکے تھے، اس وقت میر جعفر زٹل کا بڑھاپا تھا۔ اگلے وقتوں کے لوگ رنگین جریبیں جن پر نقاشی کا کام ہوتا تھا، اکثر ہاتھ میں رکھا کرتے تھے۔ ایک دن شام کے وقت میر موصوف ایک سبز جریب ٹیکتے ٹہلنے کو باہر نکلے۔ مرزا بغل میں کتابوں کا جزدان لئے سامنے سے آتے تھے۔ اس زمانہ میں ادب کی بڑی پابندی تھی۔ بزرگوں کو سلام کرنا اور ان کی زبان سے دعا لینے کو بڑی نعمت سمجھتے تھے۔ مرزا نے جھک کر سلام کیا۔ انھوں نے خوش ہو کر دعا دی۔ چونکہ بچپن ہی میں مرزا کی موزونی طبع کا چرچا تھا، میر صاحب کچھ باتیں کرنے لگے، مرزا ساتھ ہولئے۔ انھوں نے نوخیز طبیعت کے بڑھانے کے لئے کہا کہ مرزا بھلا ایک مصرع پر مصرع تو لگاؤ :

لالہ در سینہ داغ چوں دارد؟​

مرزا نے سوچ کر کہا :

عمر کو تا است غم فزوں دارد​

میر صاحب نے فرمایا، واہ بھئی دل خون ہوتا ہے، جگر خون ہوتا ہے، بھلا سینہ کیا خون ہو گا، سینہ پر زخوں ہوتا ہے۔

مرزا نے پھر ذرا فکر کیا اور کہا :

چہ کند سوزشِ دروں دارد​

میر صاحب نے کہا کہ ہاں مصرع تو ٹھیک ہے لیکن ذرا طبیعت پر زور دیکر کہو، مرزا دق ہو گئے تھے، جھٹ کہہ دیا :

یک عصا سبز زیرِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ دارد​

میر جعفر مرحوم ہنس پڑے اور جریب اٹھا کر کہا۔ کیوں! یہ ہم سے بھی۔ دیکھ کہوں گا تیرے باپ سے۔ بازی بازی بریش بابا ہم بازی، مرزا لڑکے تو تھے ہی بھاگ گئے۔

چند اشعار جن سے میرؔ اور مرزا کے کلام میں امتیاز ہوتا ہے لکھے جاتے ہیں۔ ان شعروں میں دونوں استادوں کی طبیعت برابر لڑی ہے، مگر دونوں کے انداز پر خیال کرو۔

ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
(میر)

قسم جو کھائیے تو طالع زلیخا کی
عزیز مصر کا بھی صاحب اک غلام لیا
(میر)

چمن میں صبح جو اس جنگ جو کا نام لیا
صبا نے تیغ کا موجِ رواں سے کام لیا
(سودا)

کمال بندگی عشق ہے خداوندی
کہ ایک زن نے مہ مصر سا غلام لیا
(سودا)

گِلا میں جس سے کروں تیری بیوفائی کا
جہاں میں نام نہ لے پھر وہ آشنائی کا
(میر)

گلا لکھوں میں اگر تیری بے وفائی کا
لہو میں غرق سفینہ ہو آشنائی کا
(سودا)

دکھاؤں گا تجھے زاہد اس آفتِ دیں کو
خلل دماغ میں تیرے ہے پارسائی کا
(سودا)

چمن میں گل نے جو کل دعوئے جمال کیا
جمالِ یار نے منھ اس کا خوب لال کیا
(میر)

برابری کا تری گل نے جب خیال کیا
صبا نے مار طمانچہ منھ اس کا لال کیا
(سودا)

دل پہنچا ہلاکت کو بہت کھینچ کسا لا
لے یار مرے سلمہ اللہ تعالٰے

ایک محروم چلے میر ہمیں دُنیا سے
ورنہ عالم کو زمانے نے دیا کیا کیا کچھ
(میر)

سوداؔ جہاں میں آ کے کوئی کچھ نہ لے گیا
جاتا ہوں ایک میں دلِ پر آرزو لئے
(سوداؔ)

رات ساری تو کٹی سنتے پریشاں گوئی
میرؔ جی کوئی گھڑی تم بھی تو آرام کرو
(میرؔ)

سوداؔ تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات
اب آئی سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی
(سودا)

ہوتی نہیں ہے صبح نہ آتی ہے مجھ کو نیند
جس کو پکارتا ہوں وہ کہتا ہے مر کہیں
(سودا)​

کفر کچھ چاہیے اسلام کی رونق کے لئے
حُسن زنار ہے تسبیح سلیمانی کا

ہوا ہے جب کفر ثابت ہے وہ تمنوائے مسلمانی
نہ ٹوٹے شیخ سے زنار تسبیح سلیمانی

مت رنج کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد
دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا

کعبہ اگرچہ ٹوٹا تو کیا جائے غم ہے شیخ
یہ قصرِ دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا

نہ بُھول اے آرسی گر یار کو تجھ سے محبت ہے
نہیں ہے اعتبار اسکا یہ منھ دیکھے کی الفت ہے

بگولے سے جسے آسیب اور صرصر سے زحمت ہے
ہماری خاک یوں برباد ہوائے ابر رحمت ہے​

چند مقالے اسی طرح کے جراتؔ کے حال میں بھی ہیں (دیکھو صفحہ ۳۵۱ – ۳۵۲)۔

غیر کے پاس یہ اپنا ہی گماں ہے کہ نہیں
جلوہ گر یاد مرا ورنہ کہاں ہے کہ نہیں

دل کے پرزوں کو بغل بیچ لئے پھرتا ہوں
کچھ علاج انکا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں

مہر ہر ذرہ میں مجھ کو ہی نظر آتا ہے
تم بھی ٹک دیکھو تو صاحب نظراں ہے کہ نہیں

جرم ہے اس کی جفا کا کہ وفا کی تقصیر
کوئی تو بولو میاں منھ میں زباں ہے کہ نہیں

پاس ناموس مجھے عشق کا ہے اے بلبل
ورنہ یاں کون سا انداز فغاں ہے کہ نہیں

آگے شمشیر تمھاری کے بھلا یہ گردن
مُو سے باریک تراے خوش کمراں ہے کہ نہیں

پوچھا سودا سے میں اک روز کہ اے آوارہ
تیرے رہنے کا معین بھی مکاں ہے کہ نہیں

یک بیک ہو کے برآشفتہ لگا وہ کہنے
کچھ تجھے عقل سے بہرہ بھی میاں ہے کہ نہیں

دیکھا میں قصر فریدوں کے اوپر اک شخص
حلقہ زن ہو کے پکارا کوئی یاں ہے کہ نہیں

سینہ میں ہوا نالہ و پہلو میں دل آتش
دھڑکے ہے پڑا دل کہ نہ ہو مشتعل آتش

اشک آتش و خوں آتش و ہرلختِ دل آتش
آتش پہ برستی ہے پڑی متسل آتش​

یک لحظہ طرف ہو کے مرے دیدہ دل سے
نادم تو سمندر ہے سدا منفعل آتش

یاقوت نہیں ہے وہ ترے لعل سے اے شوخ
جا ڈوب موئی آگ میں ہو کر خجل آتش

داغ آج سے رکھتا نہیں ان سنگدلوں کا
مُدت سے ہوئی ہے مری چھاتی پہ سل آتش

دل عشق کے شعلہ سے جو بھڑکا تو رہا کیا
اے جان نکل جا کہ لگی متصل آتش

اے قطرہ مے لے اڑی سوداؔ کو جگہ سے
بارود کے تودے کو ہے بس ایک تل آتش



دیں شیخ و برہمن نے کیا یار فراموش
یہ سبحہ فراموش وہ زنار فراموش

دیکھا جو حرم کو تو نہیں دیر کی وسعت
اس گھر کی فضا کر گیا معمار فراموش

بھولے نہ کبھی دل سے مرا مصرع جانکاہ
نالہ نہ کرے مرغ گرفتار فراموش

دل سے نہ گئی آہ ہوس سیر چمن کی
اور ہم نے کیا رخنہ دیوار فراموش

یا نالہ ہی کر منع تو، یا گر یہ کو ناصح
دو چیز نہ عاشق سے ہو یکبار فراموش

بُھولا پھروں ہوں آپ کو ایک عمر سے لیکن
تجھ کو نہ کیا دل سے میں زنہار فراموش

دل درد سے کس طرح مرا خالی ہو سوداؔ
وہ ناشنوا حرف میں گفتار فراموش



جو گذری مجھے پہ مت اس سے کہو ہوا سو ہوا
بلا کشان محبت پہ جو ہوا سو ہوا

مبادا ہو کوئی ظالم نرا گریباں گیر
مرے لہو کو تو دہن سے دھو ہوا سو ہوا

پہنچ چکا ہے سر زخم دل تلک یارو
کوئی سیُو کوئی مرہم کرد ہوا سو ہوا

کہے ہے سُن کے میری سرگذشت وہ بیرحم
یہ کون ذکر ہے جانے بھی دو ہوا سو ہوا

خدا کے واسطے آ درگذر گنہ سے مرے
نہ ہو گا پھر کبھو اے تندخو ہوا سو ہوا​

یہ کون حال ہے احوال دل پہ اے آنکھو
نہ پھوٹ پھوٹ کے اتنا بہو ہوا سو ہوا

دیا اسے دل و دیں اب یہ جان ہے سوداؔ
پھر آگے دیکھئے جو ہو، سو ہو، ہوا سو ہوا



ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

کیونکر نہ چاک چاک گریبانِ دل کروں
دیکھوں جو تیری زلف کو میں دست شانے میں

زینت دلیل مفلسی ہے ٹک کماں کو دیکھ
نقش و نگار چھٹ نہیں کچھ اسکے خانے میں

اے مرغِ دل سمجھ کے تو چشم طمع کو کھول
تو نے سنا ہے دام جسے، ہے وہ دانے میں

چلے میں کھینچ کھینچ کیا قد کو جوں کماں
تیر مراد پر نہ بٹھایا نشانے میں

پایا ہر ایک بات میں اپنے میں یوں تجھے
معنی کو جس طرح سخن عاشقانے میں

دستِ گرہ کشا کو نہ تزئین کرے فلک
مہندی بندھی نہ دیکھی میں انگشت شانے میں

ہمسا تجھے تو ایک ہمیں تجھ سے ہیں کئی
جا دیکھ لے تو آپ کو آئینہ خانے میں

سوداؔ خدا کے واسطے کر قصہ مختصر
اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں



افعی کو یہ طاقت ہے کہ اس سے بسر آوے
وہ زلف سیہ اپنی اگر لہر پر آوے

اصداف میں اس مہر کی پہچان اگر آوے
ہر ذرہ میں کچھ اور ہی جھمکا نظر آوے

مجھ چشم سے اب اشک نہیں آنیکا ناصح
آوے بھی غمِ دل سے تو لخت جگر آوے

پھرتا ہوں ترے واسطے میں دربدر اے یار
تجھ سے نہ ہوا یہ کہ کبھی میرے گھر آوے

گویا دل عاشق بھی ہے اک فیل سیہ مست
رُکتا نہیں روکے سے کسے کے جدھر آوے

کہہ کہہ کے دُکھ اپنا میں کیا مغز کو خالی
اتنا نہ ہوا سُن کے تری چشم بھر آوے​

شیشہ نہ کہے راز مرے دل کا تو اے جام
سرگوشی سے اس کی نہ تری چشم بھر آوے

کیا ہو جو قفس تک مرے اب صحنِ چمن سے
وہ برگ لئے گل کے نسیم سحر آوے

سب کام نکلتے ہیں فلک تجھ سے و لیکن
میرے دل ناشاد کی امید بر آوے

جب پھونکتے ناقوس صنم خانہ دل شیخ
کعبہ کا ترے وجد میں دیوار و در آوے

نامے کا جواب آنا تو معلوم ہے اے کاش
قاصد کے بد و نیک کی مجھ تک خبر آوے

میں بھی ہوں ضعیف اسقدر اے مورکہ وہ آپ
گذرے مرے سر سے جو تیرے تا کمر آوے

سب سے کہے دیتا ہوں یہ کہہ دیں کہ پھر انا
بالیں پہ مرے شور قیام اگر آوے

دیتا ہے کوئی مرغ دل اس شوخ کو سوداؔ
کیا قہر کیا تو نے غضب تیرے پر آوے

اب لے تو گیا ہے پر اسے دیکھیو ناداں
پل میں نہ اڑاتا وہ اگر بال و پر آوے

خوبوں میں دلدہی کی روش کم بہت ہے یاں
خواہان جاں جو چاہو تو عالم بہت ہے یاں

غافل نہ رہ تو اہل تواضع کے حال سے
تیغ و کماں کی طرح خم و چم بہت ہے یاں

چشم ہوس اٹھا لے تماشے سے جوں حباب
نادیدنی کا دید بس اک دم بہت ہے یاں

خونِ جگر بآدم دلو زینہ ہے لگاؤ
صورت معاش خلق کی برہم بہت ہے یاں

آنکھوں میں دوں اس آئینہ رو کو جگہ ولے
ٹپکا کرے ہے بسکہ یہ گھر نم بہت ہے یاں

کہتا ہے حال ماضی و مستقبل ایک ایک
جامِ جہاں نما تو نہیں، جم بہت ہے یاں

دیکھا جو باغ دہر تو مانند صبح و گل
کم فرصتی ملاپ کی باہم بہت ہے یاں

آیا ہوں تازہ دیں بحرم شیخُنا مجھے
پوجن نماز سے بھی مقدم بہت ہے یاں

سودا کر اس سے دل کی تسلی کے واسطے
گوشہ سے چشم کے نگہ کم بہت ہے یاں​

ابراہیم علی خاں تذکرہ گلزار ابراہیمی میں لکھتے ہیں کہ مرزا غلام حیدر مجذوبؔ مرزا رفیع کے بیٹے ہیں اور اب کہ ۱۱۹۶ھ میں لکھنؤ میں رہتے ہیں۔ درستی فہم اور آشنا پرستی کے اوصاف سے موصوف ہیں۔ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم فرماتے ہیں کہ ایک مغل بچہ خوش اخلاق جوان ہے۔ مرزا سودا کا متنبیٰ ہے، سپاہ گری کے عالم میں زندگی بسر کرتا ہے اور اپنے مربی کی شاگردی کا دم بھرتا ہے۔

عداوت سے تمہاری کچھ اگر ہوسے تو میں جانوں
بھلا تم زہر دے دیکھو اثر ہووے تو میں جانوں

نہ اندیشہ کرو پیارے کہ شب ہے وصل کی تھوڑی
تم اپنی زلف کو کھولو سحر ہووے تو میں جانوں

ہمارے تم سے جو عہد وفا ہوں انکو تم جانو
مرے پیماں میں کچھ نوعِ دگر ہووے تو میں جانوں

ذرا تم مارِ کاکل کو مرے لب سے لگا دیکھو
ہزاروں سانپ کاٹیں پھر اثر ہووے تو میں جانوں

خوباں سے جو دل ملا کرے گا
ڈرتا ہوں یہی کہ کیا کرے گا

آوے بھی مسیحا مرے بالیں پہ تو کیا ہو
بیمار یہ ایسا تو نہیں جو کو شفا ہو

جور و جفا پہ یار کی دل مت نگاہ کر
اپنی طرف سے ہووے جہاں تک نباہ کر

خاک و خوں میں صورتیں کیا کیا نہ ملیاں دیکھیاں
اے فلک باتیں تری کوئی نہ بھلیاں دیکھیاں

آہ میں اپنی اثر ڈھونڈے ہے اے مجذوبؔ تو
بید مجنوں کی نہ شاخیں ہم نے پھلیاں دیکھیاں

بس اب تیرے تاثیر اے آہ دیکھی
نہ آیا وہ کافر بہت راہ دیکھی

خاموش جو اتنا ہوں مجھے گنگ نہ سمجھو
اک عرض تمنا ہے کہ آ لب پہ آڑی ہے

چاہوں مدد کسے سے نہ اغیار کے لئے
میں بھی تو یار! کم نہیں دو چار کے لئے​

طوبےٰ تلے میں بیٹھ کے روؤں گا بار بار
جنت میں تیرے سایہ دیوار کے لئے

ہے درد سر ہی بلبل آزاد کی صفیر
موزوں ہے نالہ مرغِ گرفتار کے لئے​

میر تقی مرحوم کی زبان سے ان کے باب میں کچھ الفاظ نکلے تھے۔ اس پر فرماتے ہیں :

اے میر سمجھیو مت مجذوب کو اوروں سا
ہے وہ خلفِ سودا اور اہل ہنر بھی ہے

اشک آنکھ میں ہو عشق سے تا دلمیں غم رہے
یہ گھر ہے وہ خراب کہ آتش میں نم رہے

نکلے اگر قفس سے تو خاموش ہم صفیر
صیاد نے سنایا ترانہ تو ہم رہے