آب حیات/محمد احسن احسن
احسن تخلص، محمد حسن نام، یہ بھی انہی لوگوں کے ہم عصر و ہم زبان ہیں۔ چنانچہ ایک غزل اور دو شعر اُن کے ہاتھ آئے وہی لکھے جاتے ہیں :
صبا کہیو اگر جاوے ہے تو اُس شوخ دلبرسوں
کہ کر کر قول پرسوں کا گیا برسوں (۱) آوے برسوں
(۱) یعنی بغل سے گیا برسوں گزر گئے۔)
عجب نئیں ابر گر جلتوں کو جل کر جلاوے گا
کیا ہے یار میرے برسوں کہتا ہے کہ میں برسوں
یو قاصد وعدہ کرتا ہے جو پرسوں کا کہ پھر آوے
کبوتر پھر نہیں آتا گلی اس کی سیتی برسوں
ترس تجھ کو نہیں اے شوخ اتنی کیا ہے ترسائی
ترے دیدار کو میں دیدہ ترسوں کھڑا ترسوں
ترے تل سوں مجھے نت بیٹھ کا سودا ہے اے ظالم
عجب نئیں ہے اگر تو تیل نکساوے مرے سَرسوں
زلف تیری معطر ہے عطر فتنے سینتی ظالم
الٰہی آبرو رکھیو پڑا ہے کام ابتر سوں
غزل اس طرح سے کہنی بھی احسن تجھ سوں بن آوے
جواب اب آبرو کب کہہ سکے مضمون بہتر سوں
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
لام نستعلیق کا ہے اُس بُتِ خوش خط کی زُلف
ہم تو کافر ہوں، اگر بندے نہ ہوں اسلام کے
یہی مضمونِ خط ہے احسن اللہ
کہ حُسنِ خوبرو یاں عارضی ہے
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
نازک بدن پہ اپنے کرتے ہو تم جو غرہ
موسیٰ کمر نے تجھ کو فرعون سا بنایا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*