Jump to content

آب حیات/غلام مصطفیٰ خان یکرنگ

From Wikisource

یکرنگ تخلص، غلام مصطفیٰ خاں نام، قدیمی تذکروں میں انھیں طبقہ اول کے شاعروں میں لکھا ہے، مگر یہ لوگ با انصاف ہوتے تھے اور ہر کام کے حُسن و قبح کو خوب سمجھتے تھے۔ اُس لئے باوجود کہن سالی اور کہنہ مشاقی کے آخر میں اپنا کلام مرزا جانجاناں مظہر کو بھی دکھاتے تھے، لیکن جو کلام ان کا موجود ہے، بزرگوں سے سنا اور تذکروں میں بھی دیکھا بڑے مشاق تھے اور اپنے وقت میں سب اُنھیں خوش فکر اور با کمال مانتے تھے اور لُطف یہ ہے کہ تخلص کی طرح عالم آشنائی میں یک رنگ دیکتا تھے۔

یکرنگ پاس اور سجن کچھ بساط

رکھتا ہوں میں دو نین کہو تو نذر کروں

زبانِ شکوہ ہے مہدی کی ہر بات

کہ خوباں نے لگائے ہیں مجھ ہات

اس زلف کا یہ دل ہے گرفتار بال بال

یکرنگ کے سخن میں خلاف ایک مُو نہیں

جو کوئی توڑتا ہے غنچہ گل

دلِ بُلبل شکستہ کرتا ہے

یکرنگ نے تلاش کیا ہے بہت ولے

مظہر سا اس جہاں میں کوئی میرزا نہیں

پارسائی اور جوانی کیوں کہ ہو

ایک جاگہ آگ پانی کیونکر ہو

نہ کہو یہ کہ یار جاتا ہے

دل سے صبر و قرار جاتا ہے

گر خبر لینی ہو تو لے صیاد

ہاتھ سے یہ شکار جاتا ہے

مرزا جان جاناں کی اُستادی اور اپنی شاگردی کا اشارہ ہے :

جس کے دردِ دل میں کچھ تاثیر ہے

گر جواں بھی ہے تو میرا پیر ہے

لگے ہیں خوب کانوں میں بتوں کے

سخن یکرنگ کے گویا گہر ہیں

اس کو مت جانو میاں اوروں کی طرح

مصطفیٰ خاں آشنا یکرنگ ہے

جدائی سے تری اے صندلی رنگ

مجھے یہ زندگانی درد سر ہے

خدا جانے اِن باتوں کو سُن کر ہمارے شائستہ زمانہ کے لوگ کیا کہیں گے کچھ تو پرواہ بھی نہ کریں گے اور کچھ واہیات کہہ کر کتاب بند کر دیں گے مگر تم ان باتوں کو ہزل نہ سمجھو، ایک پل کی پل آنکھیں بند کر لو اور تصور کی آنکھیں کھول دو، دیکھو وہی محمد شاہی عہد کے کہن سال درباری لباس پہنے بیٹھے ہیں اور باوجود اس متانت و معقولیت کے مُسکرا مسکرا کر آپس میں اشعار پڑہتے ہیں اور مزے لیتے ہیں۔ کیا اُن نورانی صورتوں پر پیار نہ آئے گا، کلام کی تاثیر بیٹھنے دے گی، محبت کا جوش اُن کے ہاتھ نہ چوم لے گا۔

وہ صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں

اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں

میرے دوستو! غور کے قابل تو یہ بات ہے کہ آج جو تمھارے سامنے ان کے کلام کا حال ہے کل اوروں کے سامنے یہی تمھارے کلام کا حال ہوتا ہے۔ ایک وقت میں جو بات مطبوعِ خلائق ہو یہ ضرور نہیں کہ دوسرے وقت بھی ہو، خیال کرو انھی بزرگوں کے جلسہ میں آج ہم اپنی وضع اور لباس سے جائیں اور اپنا کلام پڑھیں تو وہ سنجیدہ اور برگزیدہ لوگ کیا کہیں گے۔ ایک دوسرے کو دیکھیں گے اور مسکرائیں گے، گویا سفلہ اور چھچھورا سمجھیں گے، ان بزرگوں کو کوئی بات ناپسند ہوتی تو اتنا ہی اشارہ کافی ہوتا تھا۔ اس خیال کی تصدیق اور اُس زمانہ کی وضع و لباس دکھانے کو دریائے لطافت کی ایک عبارت نقل کرتا ہوں، سید انشاء جن کی کوئی بات ظرافت سے خالی نہیں، ایک اپنے عہد کے بڈھے میر صاحب کی تقریر ایک کسبی کے ساتھ لکھتے ہیں، یہ دونوں دلی کے رہنے والے ہیں اور لکھنؤ میں باتیں کر رہے ہیں۔

بی نورن کہتی ہیں

اجی آؤ میر صاحب، تم عید کا چاند ہو گئے، دلی میں آتے تھے دوپہر رات تک بیٹھتے تھے اور ریختے پڑھتے تھے، لکھنؤ میں تمھیں کیا ہو گیا کہ کبھی صورت بھی نہیں دکھاتے، اب کے کربلا میں کتنا میں نے ڈھونڈا، کہیں تمھارا اثر آثار معلوم نہ ہوا۔ ایسا نہ کیجئو، کہیں آٹھوں (آٹھوں کا میلہ لکھنؤ میں بڑی دھوم دھام کا ہوتا ہے۔) میں نہ چلو، تمھیں علی کی قسم آٹھوں میں مقرر چلیو۔

اب جس رنگ سے سید انشاء میر صاحب موصوف کی تصویر کھینچتے ہیں اسے ملاحظہ فرمائیے اور اتنا خیال اور بھی رہے کہ یہ پیر دیرینہ سال، ایک زمانہ کے خوش طبع رنگین مزاج شخص تھے، کوئی ثقہ متقی پرہیزگار نہ تھے، باوجود اس کے تازہ اوضاع و اطوار اور نئی رفتار و گفتار پر کیا خیالات رکھتے تھے۔

بیان صورت میر موصوف اینکہ، سیاہ رنگ، کوتاہ قد، فربہ گردن، دراز گوش، بندشِ دستار بطورِ بعض کند سازانِ کہنہ، رنگش سبز یا اگرئی، والا اکثر سفید، گاہے گل سرخ ہم در گوشہ دستار مے زنند، دجامہ مصطلح ہندوستان (نہ جامعہ لغوی) دَر برمبارک بسیار پاکیزہ مے باشد، چوں لباس باریک را ازیں جہت کہ برائے زناں مقرر است نمے پوشند۔ ختِ پوشاکی ملا زمانِ شریف ایشاں اکثر گندہ است لیکن قیمتی دونیم روپیہ رایک تھان تمام دریک جامہ صرف مے شود، چولی زیر پستاں، بالائے آں دوپٹہ پشتولیہ، دامن برزمین جاروب می کشندد سی ہم پر دندانِ مبارک ہیمالندد پاپوس از سقرلاطِ زر و دریاق وسط آں ستارہ اڑتا ہائے طلائی، حالانکہ ہیَیت معلوم شد طرز کلام با کسبی پاید سنید، میر صاحب فرماتے ہیں۔

اجی بی نورن! یہ کیا بات فرماتی ہو، تم اپنے جیوڑے کی چین ہو، پر کیا کہیں جب سے دلی چھوڑی ہے، کچھ جی افسردہ ہو گیا ہے اور شعر پڑھنے کو جو کہو، تو کچھ لطف اس میں بھی نہیں رہا کہ مجھ سے سنئے، ریختے میں استاد میاں ولی ہوئے، اُن پر توجہ شاہ گلشن صاحب کی تھی پھر میاں آبرو، میاں ناجی اور میاں حاتم پھر سب سے بہتر مرزا رفیع السودا اور میر تقی صاحب، پھر حضرت خواجہ میر درد صاحب برواللہ مرقدہٗ جو میرے بھی اُستاد تھے، وہ لوگ تو سب مر گئے اور ان کی قدر کرنے والے بھی جاں بحق تسلیم ہوئے، اب لکھنؤ کے جیسے چھوکرے ہیں ویسے ہی شاعر ہیں اور دلی میں بھی ایسا ہی کچھ چرچا ہے، تخم تاثیر صحبت اثر، سبحان اللہ، یہ کون میاں جرأت بڑے شاعر، پوچھو تو تمھارا کام کس دن شعر کہنا تھا اور رضا بہادر کا کون سا کلام ہے اور دوسرے میاں مصحفی کہ مطلق شعور نہیں رکھتے، اگر پوچھئے کہ ضَرب زید عُمراً کی ترکیب تو ذرا بیان کرو تو اپنے شاگردوں کو ہمراہ لے کر لڑنے آتے ہیں اور میاں حسرت کو دیکھو اپنا عرق بادیان اور شربت انارین چھوڑ کے شاعری میں آ کے قدم رکھا ہے، اور میر انشاء اللہ خاں بچارے میر ماشاء اللہ خاں کے بیٹے آگے پریزاد تھے، ہم بھی گھورنے کو جاتے تھے اب چند روز سے شاعر بن گئے، مرزا مظہر جان جاناں صاحب کے روز مرہ کو نام رکھتے ہیں اور سب سے زیادہ ایک اور سنئیے کہ سعادت یار طہماسپ کا بیٹا، انوری ریختہ آپ کو جانتا ہے۔ رنگین تخلص ہے، ایک قصہ کہا ہے اس مثنوی کا نام دلپذیر رکھا تھا، رنڈیوں کی بولی اس میں باندھی ہے میر حسن پر زہر کھایا ہے، ہر چند اس مرحوم کو بھی کچھ شعور نہ تھا، بدر منیر کی مثنوی نہیں کہی، گویا سانڈے کا تیل بیچتے ہیں، بھلا اس کو شعر کیونکر کہیے، سارے لوگ دِلی کے لکھنؤ کے رنڈی سے لے کر مرد تک پڑھتے ہیں :

چلی واں سے دامن اٹھاتی ہوئی

کڑے کو کڑے سے بجاتی ہوئی

سو اس بچارے رنگین نے بھی اسی طور پر قصہ کہا ہے، کوئی پوچھے کہ بھائی تیرا باپ رسالدار مسلم لیکن بچارا برچھی بھالے کا ہلانے والا تیغے کا چلانے والا تھا، تو ایسا قابل کہاں سے ہوا اور شہد پن جو بہت مزاج میں رنڈی بازی سے آ گیا ہے تو ریختہ کے تئیں چھوڑ کر ایک ریختی ایجاد کی ہے، اس واسطے کہ بھلے آدمیوں کی بہو بیٹیاں پڑھ کر مشتاق ہوں اور ان کے ساتھ اپنا منھ کالا کریں، بھلا یہ کلام کیا ہے :

ذرا گھر کو رنگیں کے تحقیق کر لو

یہاں سے ہے کے پیسے ڈولی کہارو

مرد ہو کہتا ہے : مصرعہ "کہیں ایسا نہ ہو کم بخت میں ماری جاؤں " اور ایک کتاب بنائی ہے اس میں رنڈیوں کی بولی لکھی ہے، جس میں اوپر والیاں، چیلیں، اوپر والا، چاند، اُجلی دھوبن وغیرہ وغیرہ۔ ان بزرگوں کو خیال کرو کہ مصحفی اور سید انشاء اور جرأت کو اپنی جگہ پر یہ کچھ کہتے تھے، پھر ہم اپنی بولی اور اپنی تراش اور ایجادوں کی قبولیت دوام کا سرٹیفکیٹ دے کر کس طرح نازاں ہوں جو نئی امت ہمارے بعد آئے گی وہ خدا جانے کیا کچھ میں میکھ نکالے گی، خیر اپنے اپنے وقت پر یوں ہی ہو رہا ہے اور یوں ہی ہوتا رہے گا۔

خاتمہ

پہلا دور برخاست ہوتا ہے، اِن مبارک صدر نشینوں کو شکریہ کے ساتھ رخصت کرنا چاہیے کہ مبارک جانشینوں کے لئے جگہ خالی کر کے اُٹھے، ایجاد کے بانی اور اصلاح کے مالک تھے، ملک کی زبان میں جو کچھ کیا اچھا کیا جو کام باقی ہے اچھے نکتہ پردازیوں کے لئے چھوڑ چلے ہیں، ہر مکان جلسہ کے بعد درہم برہم معلوم ہوتا ہے مگر یہ اس طرح سجا کر چلے ہیں کہ جو اِن کے بعد آئیں گے، آرائش و زیبائش کے انداز سوچ سوچ کر پیدا کریں گے، اب زیادہ گفتگو کا موقع نہیں کہ دور دوم کو زیب دینے والے آن پہنچے۔

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*