Jump to content

آب حیات/شاہ نصیر

From Wikisource

نصیرؔ تخلص نصیر الدین نام تھا، مگر چونکہ رنگت کے سیاہ فام تھے، اس لئے گھرانے کے لوگ میاں کلّو کہتے تھے۔ وطن ان کا خاص دھلی تھا۔ والد شاہ غریب نام ایک بزرگ تھے کہ اپنی غربت طبع اور خاکساری مزاج کی بدولت اسم بامسمٰی غریب تھے۔ نیک نیتی کا ثمرہ تھا کہ نام کی غریبی کو امیری میں بسر کرتے تھے۔ شہر کے رئیس اور امیر سب ادب کرتے تھے مگر وہ گوشہ عاطیت میں بیٹھے اپنے معتقد مریدوں کو ہدایت کرتے رہتے تھے، ان بزرگوں کے نام چند گاؤں دربار شاہی سے آل تمغا معاف تھے۔ ملا ماجراؔ اور ہرسانہؔ علاقہ سونی پت میں سلیم پور علاقہ غازی آباد میں، وزیر آباد، شہر دہلی کے پاس جہاں مخدوم شاہ عالم کی درگاہ ہے اور اب تک 7 جمادی الاول کو وہاں عرس ہوتا ہے۔ اب فقط مولر بن ایک گاؤں بلب گڑھ کے علاقہ میں سید عبد اللہ شادان کے سجادہ نشین کے نام پر واگذاشت ہے غرضکہ شاہ غریب مرحوم نے اس اکلوتے بیٹھے کو بڑی ناز و نعمت سے پالا تھا اور استاد و ادیب نوکر رکھ کر تعلیم کیا تھا۔

عجیب اتفاق ہے کہ وہ کتابی علم میں کما حقہ کامیاب نہ ہوئے، البتہ نتیجہ اسکا اہل علم سے بہتر حاصل ہے، کیونکہ جو وہ کہتے تھے اسے عالم کان لگا کر سنتے تھے جو لکھتے تھے اس پر فاضل سر دھنتے تھے، ان کی طبیعت شعر سے ایسی مناسب واقع ہوئی تھی کہ بڑے بڑے ذی استعداد اور مشاق شاعر مشاعروں میں منھ دیکھتے رہ جاتے تھے۔ سلسلہ تلمذ دو واسطہ سے سوداؔ اور دردؔ تک پہونچتا ہے کیونکہ یہ شاہ محمدی مائل کے شاگرد تھے اور وہ قیام الدین قائم کے قائم نے سوداؔ سے بھی اصلاح لی اور خواجہ میر دردؔسے بھی انھوں نے انگریزی عملداری میں زندگی بسر کی لیکن شاہ عالم کے زمانہ میں شاعری جوہر دکھانے لگی تھی اور خاندانی عضمت نے ذاتی کمال کی سفارش سے دربار تک پہونچا دیا تھا۔ دربار کے اہل کمال کو عیدوں اور جشنوں کے علاوہ ہر فصل اور موسم پر سامان مناسب انعام ہوتے تھے۔ شعراء کو دیر ہوتی تو تقاضے سے بھی وصول کر لیتے تھے۔ ایک قطعہ بطور حسن طلب جاڑے کے موسم میں انھوں نے کہہ کر دیا تھا، اور صلہ حاصل کیا تھا۔ اس کے دو شعر مجھے یاد ہیں۔

بچا ے گا تو ہی اے میرے اللہ

کہ جاڑے سے پڑا بیڈھپ ہے پالا


پناہ آفتاب اب مجھ کو بس ہے

کہ وہ مجھ کو اڑھا دے گا دوشالا​

اس میں لطف یہ ہے کہ آفتاب شاہ عالم بادشاہ کا تخلص تھا۔

سیاحی کی دولت میں سے جو سرمایہ انھیں حاصل ہوا، وہ بھی شاعری کی برکت سے تھا، جس کی مسافت جنوب میں حیدر آباد تک اور مشرق میں لکھنؤ تک پہونچی۔ اگرچہ دربار کے علاوہ تمام شہر میں بھی ان کی قدر اور عزت ہوتی تھی۔ مگر جن لوگوں کی عادتیں ایسے درباروں میں بگڑی ہوتی ہیں۔ انکے دل تعلیم یافتہ حکومتوں میں نہیں لگتے اسی واسطے جب انگریزی عملداری ہوئی تو انھیں دکن کا سفر کرنا پڑا۔

دکن میں دیوان چند دلال کا دور تھا۔ اگرچہ کمال کی قدرانی اور سخاوت ان کی عام تھی۔ مگر دلی والوں پر نظر پرورش خاص رکھتے تھے۔ اور بہت عزت سے پیش آتے تھے۔ بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ وہ شعر و سخن کی مذاق رکھتے تھے۔ غرض وہاں شاہ صاحب کے ضواہرات نے خاطر خواہ قیمت پائی۔ دلّی کا چٹخارا ابھی ایسا نہیں کہ انسان بھول جائے۔ اس لئے انعام و اکرام سے مالا مال ہو کر پھر دلّی آئے اور تین دفعہ پھر گئے۔

دکن میں ان کے لئے فقط دولت کے فرشتے نے ضیافت نہ کی بلکہ حسن شاعری کی زہرہ آسمان سے اتری، اور شمش دلی کے عہد کا پرتو پھر دلوں پر ڈالا۔ شعر گوئی کے شوق جو برسوں سے بجھے چراغوں کی طرح طاقوں میں پڑے تھے۔ دل دل میں روشن ہو گئے اور ماحول کی محنتیں اس تیل ٹپکانے لگیں۔ اب بھی کوئ دلی سے دکن جائے تو شاہ صاحب کے شاگردوں کے نام اتنے سنے گا کہ دلّی کی کثرت تلامذہ کو بھول جائے گا۔

شاہ صاحب دو دفعہ لکھنؤ بھی گئے مگر افسوس ہے آج دہلی یا لکھنؤ میں کوئی اتنی بات کا بتانے والا نہ رہا کہ کس کس سنہ میں کہاں کہاں گئے تھے یا یہ کہ کس کس مشاعرہ میں اور کس کےمقابلہ میں کون کون سی غزل ہوئی تھی۔ اس میں شک نے کہ پہلی دفعہ جب گئے ہیں تو سید انشاء اور مصحفیؔ اور جراءتؔ وغیرہ سب موجود تھے اور بعض غزلیں جو ان معرکوں سے منسوب اور مشہور ہیں وہ مصحفیؔ کے دیوان میں بھی موجود ہیں، دیکھو صفحہ 409 دہن سرخ ترا، چمن سرخ ترا۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ لکھنؤ میں بزرگان بااخلاق اور امرائے رتبہ شناس موجود تھے۔ وہ جوہر کو پہچانتے تھے اور صاحب جوہر کا حق مانتے تھے۔ جو جاتا تھا عزت پاتا تھا اور شکر گزار آتا لیکن دوسری دفعہ جو گئے تو رنگ پلٹا ہوا تھا۔ شیخ ناسخؔ کے زمانے کے عہد قدیم کو مسخ کر دیا تھا اور خواجہ آتشؔ کے کمال نے دماغوں کو گرما رکھا تھا۔ جوانوں کی طبیعتیں زور پر تھیں۔ نئی نئی شوخیاں انداز دکھاتی تھیں، انوکھی تراشیں پرانے سادہ پن پر مسکراتی تھیں، چنانچہ جس حریف کا افشان منزلوں کے فاصلہ سے دکھائی دیتا تھا، جب پاس آیا تو سب گردنیں ابھار ابھار دیکھنے لگے۔

یہ زبردست شاعر کہن سال مشاق، جس کا بڑھاپا جوانی کے زوروں کو چٹکیوں میں اڑاتا تھا، جس دن وہاں پہونچا تو مشاعروں میں شاید دو (۲) تین دن باقی تھے ہر استاد نے ایک دو دو مصرع کے بھیجے ادھر انھیں درد گردہ عارض ہوا مگر وہ درد کے ٹھہرتے ہی اٹھ بیٹھے اور آٹھ غزلیں تیار کر کے مشاعرہ میں آ پہنچے، پھر اور مشکل مشکل طرحیں مشاعرہ کے شاعروں نے بھیجیں اور یہ بھی بے تکلف غزلیں لے کر پہونچے، مگر وہاں کے صاحب کمال خود نہ آئے۔ جب دو تین جلسے اور اس طرح گزرے تو ایک شخص نے سر مشاعرہ مصرع طرح دیا وہ مصرع شیخ صاحب کا تھا اسوقت شاہ صاحب سے ضبط نہ ہو سکا۔ مصرع تو لے لیا مگر اتنا کہا کہ ان سے کہنا چکس پر گلدم لڑانے کی صحیح تو نہیں ہے۔ پالی میں آئیے کہ ۔ دیکھنے والوں کو بھی مزا آئے، افسوس ہے کہ اس موقع پر بعض جہلاء نے جن سے کوئی زمانہ اور کوئی جگہ خالی نہیں اپنی یاوہ گوئی سے اہل لکھنؤ کی عالی ہمتی اور مہمان نوازی کو داغ لگایا چنانچہ ایک معرکہ کے مشاعرہ میں شاہ صاحب نے آٹھ غزلیں فرمائش کی کہہ کر پڑھی تھیں۔ ایک غزل اپنی طرح کی کہی ہوئی بھی پڑھی جس کی ردیف و قافیہ عشل کی مکھی اور نحل کی مکھی تھا، اس پر بعض اشخاص نے طنز کی، کسی شعر پر سبحان اللہ کیا خوب مکھی بیٹھی ہے، کسی نے کہا حضور! یہ مکھی تو نہ بیٹھی ایک شخص نے یہ بھی کہا کہ قبلہ! غزل تو خوب ہے مگر ردیف سے جی متلانے لگا۔ شاہ صاحب نے اسی وقت کہا کہ جنھیں چاشنی سخن کا مذاق ہے وہ تو لطف ہی اٹھاتے ہیں، ہاں جنھیں صفرائے حسد کا زور ہے ان کا جی متلائے گا۔

ان جلسوں میں استاد مسلم الثبوت نے علم استادی بے لاگ بلند کر دیا تھا، مگر بعض لغزشوں نے قباحت کی جن سے کوئی بشر خالی نہیں رہ سکتا چنانچہ ایک جگہ تظلم بجائے ظلم باندھ دیا تھا اسی پر سر مشاعرہ گرفت ہوئی اور غضب یہ ہوا کہ انھوں نے سند میں یہ شعر محتشم کاشیؔ کا پڑھا :

آل نبی چو دستِ تظلم بر آورند

ارکانِ عرش را بہ تزلزل در آورند​

ایسی بھول چوک سے کوئی استاد خالی نہیں اور اتنی بات ان کے کمال میں کچھ رخنہ بھی نہیں ڈال سکتی، چنانچہ زور کلامنے وہیں بیسوں اشخاص ان کے شاگرد کر لئے۔ منشی کرامت علی اظہرؔ کہ اول اول لکھنؤ کی تمام کتب مطبوعہ پر انھیں کی تاریخیں ہوتی تھیں۔ ہمیشہ شاہ صاحب کی شاگردی کا دم بھرتے تھے۔

شاہ صاحب چوتھی دفعہ پھر دکن گئے، مگر اس دفعہ ایسے گئے کہ پھر نہ آئے۔ استاد مرحوم کہ شاہ صاحب کی استادی کو ہمیشہ زبان ادب سے یاد کرتےتھے۔ اکثر افسوس سے کہا کرتے تھے کہ چوتھی دفعہ ادھر کا قصد تھا جو ہر ماہ مجھ سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے کہا کہ اب آپ کا سن ایسے دور دراز سفر کے قابل نہیں، فرمایا میاں ابراہیم! وہ بہشت ہے، بہشت میں جاتا ہوں، چلو تم بھی چلو، استاد مرحوم عالم تاسف میں اکثر یہ بھی کہا کرتے تھے ان کا ہی مطلع ان کے حسب حال ہوا۔

بیاباں مرگ ہے مجنونِ خاک آلودہ تن کس کا

سنے ہے سوزنِ خار مغیلاں تو کفن کس کا​

آخر حیدر آباد میں جہان فانی سے رحلت ہوئی اور قاضی مخدوم موسیٰ کی خانقاہ میں دفن ہوئے۔ شاگرد نے چراغ گل کے الفاظ سے سن کی تاریخ (1254ھ) نکالی۔ دیوان اپنا مرتب نہیں کیا، جو غزلیں کہتے تھے ایک جگہ رکھتے تھے۔ جب بہت سی جمع ہو جاتیں تو تکیہ کی طرح ایک تھیلے میں بھرتے تھے، گھر میں دے دیتے تھے اور کہتے تھے احتیاط سے رکھ چھوڑو، متفرق غزلیں ایک دو مختصر جلدوں میں تھیں کہ اور بہت سا سرمایہ دکن ہی میں رہا، یہاں ان کی اولاد میں زمانہ کی گردش نے کسی کو سر نہ اٹھانے دیا جو کل کلام کی تہذیب اور ترتیب کرتا شاگردوں کے پاس بہت سی متفرق غزلیں ہیں، مگر کسی نے سب کو جمع نہیں کیا۔ ان کے دیوان کی ہر شخص کو تلاش ہے، چنانچہ دہلی میں میر حسین تسکین (وہی تسکینؔ شاگرد رشید مومنؔ کے) ایک طباع اور نازک خیال شاعر تھے، ان کے بیٹھے سید عبد الرحمن بھی صاحب ذوق اور سخن فہم شخص تھے۔ انھوں نے بڑی محنت سے ایک مجموعہ ایسا جمع کیا کہ غالباً اس سے زیادہ ایک جگہ شاہ صاحب کا کلام جمع نہ ہو گا۔ نوابصاحب رامپور نے کہ نہایت قدرداں سخن ہیں ایک رقم معقول دے کر وہ نسخہ منگا لیا، غزلیں اکثر جگہ بکثرت پائی جاتی ہیں،مگر قصیدے نہیں ملتے کہ وہ بھی بہت تھے، حق یہ ہے کہ غزل کا انداز بھی قصیدے کا زور دکھاتا ہے۔

کلام کو اچھی طرح دیکھا گیا، زبان شکوہ الفاظ چستی ترکیب میں سوداؔ کی زبان تھی اور گرمی و لذت اس میں خداداد تھی، انھیں اپنی تشبیہوں اور استعاروں کا دعویٰ تھا، اور یہ دعویٰ بجا تھا۔ نئی نئی زمینیں نہایت برجستہ اور پسندیدہ نکالتے تھے، مگر ایسی سنگلاخ ہوتی تھیں جن میں بڑے بڑے شہسوار قدم نہ مار سکتے تھے، تشبہیہ اور استعارہ کر لیا ہے، اور نہایت آسانی سے برتا ہے، جسے اکثر زبردست انشاپرداز ناپسند کر کے کم استعدادی کا نتیجہ نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تشبیہ یا استعارہ شاعرانہ نہیں پھبتی ہے۔ لیکن یہ ان کی غلطی ہے اگر وہ ایسا نہ کہتے تو کلام سریع الفہم کیونکر ہوتا اور ہم ایسی سنگلاخ زمینوں میں گرم گرم شعر کیوں کر سنتے، پھر وہ ہزاروں شاعروں میں خاص و عام کے منھ سے واہ وا کیونکر لیتے۔ بعض الفاظ ٹک، وا چھڑے، تسپر وغیرہ جو کہ سید انشاءؔ اور جراءتؔ تک باقی تھے، وہ انھوں نے ترک کئے۔ مگر آئے ہے اور جائے ہے وغیرہ افعال انھوں نے بھی استعمال کئے، علم کے دعویدار شاعر ان کے کلام کی دھوم دھام کو ہمیشہ کن انکھیوں سے دیکھتے تھے اور آپس میں کانا پھوسیاں بھی کرتے تھے، پھر بھی ان کے زور کلام کو دبا نہ سکتے تھے، وجہ اس کی یہ ہے کہ زور طبع ان کا کسی کے بس کا نہ تھا۔ جن سنگلاخ زمینوں میں گرمی کلام سے وہ مشاعرہ کو تڑپا دیتے تھے۔ اوروں کو غزل پوری کرنی مشکل ہوتی تھے، اکثر بزرگ پرانے پرانے مشاق کہ علوم تحصیلی میں ماہر کامل تھے، مثل حکیم ثناء اللہ خاں فراقؔ حکیم قدرت اللہ خاں قاسمؔ شاگرد خواجہ میر دردؔ میاں شکیباؔ شاگرد میر مرزا عظیم بیگ اور شیخ ولی اللہ محبؔ شاگرد سوداؔ، حافظ عبدالرحمٰن خاں احسان وغیرہ موجود تھے، سب ان کے دعوے سنتے تھے۔ اور بعض موقع پر اپنی بزرگی سے ان کی طنزوں کو برداشت کرتے تھے، مگر خاموش نہ کر سکتے تھے۔

حکیم قدرت اللہ خاں قاسمؔ سے ایک خاص معاملہ درمیان آیا بلکہ ایک دفعہ مشاعرہ میں طرح ہوئی، یار شتاب اور تلوار شتاب، شاہ نصیرؔ نے جو غزل کہہ کر پڑھی تو اس میں قطعہ تھا کہ :-

رخ انور کا ترے وصف لکھا جب ہمنے

انوری نے دیا دیواں الٹ اے یار شتاب


پھر پڑھا ہم نے جو مضمون بیاض گردن

اس اسے ہو گیا چپ قاسم انوار شتاب​

حکیم صاحب مرحوم خاص و عام میں واجب التعظیم تھے۔ اس کے علاوہ فضیلت علمی کے ساتھ فن شعر کے مشاق تھے اور فقط موزونی طبع اور زور کلام کو خاطر میں نہ لاتے تھے، چونکہ خود قاسمؔ تخلص کرتے تھے۔ اس لئے قاسم انوار کا لفظ ناگوار ہوا، چنانچہ دوسرے مشاعرہ کی غزل میں قطعہ لکھا۔

واسطے انسان کے انسانیت اول ہے شرط

میرؔ ہو یا مرزا ہو، خان ہو یا نواب ہو


آدمی تو کیا خدا کو بھی نہ ہم سجدہ کریں

گر نہ خم تعظیم کو پہلے سر محراب ہو​

شاہ صاحب کی بدیہہ گوئی اور طبع حاضر نے خاص و عام سے تصدیق و تسلیم کی سند لی تھی اور وہ ایک جوش تھا کہ کسی طرح فرو ہوتا معلوم نہ ہوتا تھا، شعر کہنے سے کبھی نہ تھکتے تھے، اور کلام کی چستی میں سستی نہ آتی تھی۔ اکثر مشاعروں میں اوروں کی غزل پڑھتے پڑھتے اشعار برجستہ موزوں کر کے غزل میں داخل کر لیتے تھے۔ طبع موزوں گویا ایک درخت تھا کہ جب اس کی ٹہنی ہلاؤ فوراً پھل جھڑ پڑیں گے۔ وہ نہایت جلد اصلاح دیتے تھے اور برجستہ اصلاح دیتے تھے، طبیعت میں تیزی بھی غضب کی تھی، عین مشاعرہ میں کسی کا شعر سنتے اور وہیں بول اٹھتے کہ یوں کہو! کہنے والا سن کر منھ دیکھتا رہ جاتا۔ یہی سبب ہے کہ پرانے پرانے مشاق جھپکتے رہتے تھے۔

پڑھنے کا انداز بھی سب سے الگ تھا اور نہایت مطبوع تھا۔ انکے پڑھنے سے زور کلام دوچند بلکہ دہ چند ہو جاتاتھا کیونکہ زبان نے بھی زور طبعی سے زور اور دل کے جوش سے اثر حاصل کیا تھا، انکی آواز میں بڑھاپے تک بھی جوانی کی کڑک دمک تھی۔ جب مشاعرہ میں غزل پڑھتے تو ساری محفل پر چھا جاتے تھے اور اپنا کلام انھیں بے اختیار کر دیتا تھا۔ ایک مشاعرہ میں غزل پڑھی، اس میں جب قطعہ مذکورہ ذیل پر پہنچے تو شعر پڑھتے تھے اور مارے خوشی کے کھڑے ہوئے جاتے تھے۔

یہ مجنوں ہے نہیں آہوئے لیلٰے

پہن کر پوستین نکلا ہے گھر سے


جنھیں وہ سینگ سمجھے ہے یہ ہیں خار

لگے ہیں پاؤں نکلے ہیں یہ سر سے​

ان کا مذہب سنت جماعت تھا۔ مگر اس میں کچھ متشدد نہ تھا۔ کئی ترجیع بند اور مناقب جناب امیر علیہ السلام کی شان میں موجود ہیں، انسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ انھوں نے کہا ہے وہ زور طبع دکھانے کو یا تحسین و آفریں کے طرے زیب دستار کرنے کو نہیں کہا، بلکہ دلی محبت اور اصلی اعتقاد سے کہا ہے۔ ان کی خوش اعتقادی کا یہ حال تھا کہ گلی کوچہ میں راہ چلتے ہوئے اگر کسی طاق پر تین لڑی کا سہرا یا کوئی موکھا لپا ہوا اس میں پانچ پھول پڑے دیکھتے تو جوتیوں کے اوپر پا برہنہ کھڑے ہو جاتے تھے اور دونوں ہاتھ باندھکر فاتحہ پڑھتے۔ بعض شاگرد کہ (ہمیشہ چار پانچ ساتھ ہی رہتے تھے) ان سے پوچھتے کہ استاد کس کی درگاہے؟ فرماتے کہ خدا جانے کس بزرگ کا گزر ہے۔ وہ کہتے کہ حضرت! آپ نے بے تحقیق کیوں فاتحہ پڑھ دی؟ فرماتے کہ بھائی! آخر کسی نے پھول چڑھائے، سہرا باندھا تو یوں ہی باندھ دیا۔ کچھ سمجھ کر ہی باندھا ہو گا۔ نوبت یہاں تک پہونچی کہ بعض دفعہ کسی شاگرد کو معلوم تھا اسی نے کہا کہ استاد میں جانتا ہوں یہ سامنے حلال خور کا گھر ہے اور اس نے اپنے لال بیگ کا طاق بنا رکھا ہے اس وقت خود بھی ہنس دیتے تھے اور کہتے کہ نیر میں نے کلام خدا پڑھا ہے اس کی برکت ہوائی تو نہیں جا سکتی جہاں ٹھکانا ہے وہاں پہونچے گی۔ میرا ثواب کہیں گیا نہیں۔

شاہ صاحب نہایت نفیس طبع اور لطیف مزاج تھے، خوش پوشاک، خوش لباس رہتے تھے اور اس میں ہمیشہ ایک وضع کے پابند تھے، جو کہ دہلی کے قدیم خاندانیوں کا قانون ہے، ان کی وضع ایسی تھی کہ ہر شخص کی نظروں میں عظمت اور ادب پیدا کرتی تھی۔ وہ اگرچہ رنگت کے گورے نہ تھے مگر نور معنی صر سے پاؤں تک چھایا ہوا تھا، بدن چھریا اور کشیدہ قامت تھے، جس قدر ریش مبارک مختصر اور وجاہت ظاہری کم تھی، اس سے ہزار درجہ زیادہ خلعت کمال نے شان و شوکت بڑھائی تھی، بعض معرکوں یا بعض شعروں میں وہ اس بات پر اشارہ کرتے تھے تو ہزار حسنِ فرمان ہوتے تھے۔ بعض لطائف میں اس کا لطف حاصل ہو گا۔

شاہ صاحب باوجودیکہ اس قدر صاحب کمال تھے اور محفلوں میں اعزاز و اکرام کے صدر نشیں تھے، اس پر نہایت خوش مزاج اور یار باش تھے۔ بوڑھوں میں بوڑھے اور بچوں میں بچے بن جاتے تھے اور ہر ایک میلے میں جا کر تلاش مضامین کرتے تھے اور فکر سخن سے جو دل کھلا جاتا ہے اسے تر و تازہ اور شاداب کرتے تھے۔

لطیفہ : استاد مرحوم فرماتے تھے، ایک دفعہ بھولو شاہ کی بسنت میں شاہ صاحب آئے، چند شاگرد ساتھ تھے، انھیں لے کر تیس (۳۰) ہزاری باغ کی دیوار پر بیٹھے اور تماشا دیکھنے لگے، کسی رنڈی نے بہت سا روپیہ لگا کر نہایت زرق برق کے ساتھ ایک کار چوبی رتھ بنوائی تھی۔ شہر میں جابجا اس کا چرچا ہو رہا تھا۔ رنڈی رتھ میں بیٹھی چھم چھم کرتی سامنے سے نکلی، ایک شاگرد نے کہا کہ استاد اس پر کوئی شعر ہو۔ اسی وقت فرمایا۔

اس کی رتھ کا کلس طلائی دیکھ

شب کہا ماہ سے یہ پروین نے


بہر پرواز یہ نکالی ہے

چونچ بیضہ سے مرغ زرین نے​

لطیفہ : ایک ایسے ہی موقع پر کوئی رنڈی سامنے سے نکلی۔ اسکے سر پر اودی رضائی تھی اور وسمہ کی چمک عجیب لطف دکھاتی تھی، ایک شاگرد نے پر فرمائش کی۔ انھوں نے فرمایا۔

اُودی وسمہ کی نہیں تیری رضائی سر پر

مہ جبیں رات ہے تاروں بھری چھائی سر پر​

اگرچہ شاہ صاحب کے لئے اقبال نے فارغ البالی کا میدان وسیع رکھا تھا مگر ان کی عادت تھی کہ ہر ایک شاگرد سے کچھ نہ کچھ فرمائش بھی ضرور کر دیتے تھے۔ مثلاً غزل کو اصلاح دینے لگے، قلمدان سے قلم اٹھاتے اور کہتے، میاں کشمیر کے قلمدان کیا کیا خوب آیا کرتے تھے۔ خدا جانے کیا ہو گیا۔ اب تو آتے ہی نہیں۔ بھلا کوئی نظر چڑھ جائے تو لانا۔ اسی طرح کسی ایک سے چاقو کی فرمائش کبھی کبھی کوئی آسودہ حال شاگرہ ہوتا اور آپ کپڑے پہننے لگتے تو کہتے کہ ڈھاکے کی ململ جو پہلے آتی تھی، وہ اب دکھائی ہی نہیں دیتی صاحب! ہمیں تو یہ انگریزی ململ نہیں بھاتی۔ میاں کوئی تھان نظر چڑھے تو دیکھنا۔

بعض دوستوں نے تعجباً پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ فرمایا کہ روز واہیات بکواسیں کاغذ پر لکھتے ہیں اور آ کر میری چھاتی سوار ہو جاتے ہیں، اس فرمائش کا اتنا فائدہ ہوتا ہے کہ روز کے آنے والے چوتھے دن غزل لاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جس کام کو انسان کچھ خرچ کر کے سیکھتا ہے،اس کی قدر بھی ہوتی ہے اور شوق بھی پکّا ہوتا ہے، اور جو کچھ لکھتا ہے جانکاہی سے لکھتا ہے، اس کا تو ادھر وہ فائدہ ہوا، میرا یہ فائدہ ہوا لے آیا تو چیز آ گئی نہ لایا تو میرا پیچھا چھوٹا، جب کوئی واقعہ (شاہ نظام الدین کی سترھویں میں مر گئے، میر باقر علی صاحب ایک سید خاندانی ولی کے تھے شہر سے درگاہ کو چلے راہ میں کسی نے مار ڈالا۔ درگاہ میں خبر پہنچی تو ان کی جوانی اور مرگ ناگہانی پر سب افسوس کیا، شاہ صاحب نے اسی وقت تاریخ کہی، کیا بے عدیل تخرجہ ہے۔ قطعہ تاریخ :

بہ شب عرس حضرت محبوب

میر باقر علی چوگشت شہید


بے شش و پنچ گفتم ایں تاریخ

ہر کہ اور ایکشت بود یزید​

شہرت پاتا تو اس پر بھی شاہ صاحب کچھ نہ کچھ ضرور کہا کرتے تھے۔ چنانچہ مولوی اسمٰعیل صاحب نے جب جہاد میں شکست کھائی اور دلی میں خبر آئی تو انھوں نے اس موقع پر ایک طولانی قصیدہ کہا، تین شعر اس میں سے اس وقت یاد ہیں :

کلام اللہ کی صورت ہوا دل انکا سیپارہ

نہ یاد آئی حدیث انکو نہ کوئی نصّ قرآنی


ہرن کی طرح میدان دغا میں چوکڑی بھولے

اگرچہ تھے دم شملہ سے وہ شیر نیستانی​

مولوی صاحب کے طرفدار مجاہدوں کا دلّی میں لشکر تھا۔ بہت سے بہادروں نے آ کر شاہ صاحب کا گھر گھیر لیا، مرزا خانی کوتوال شہر تھے وہ سنتے ہی دوڑے اور آ کر بچایا، شاہ صاحب نے اشعار مذکور کو قصیدہ کر دیا اور کوتوال صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا، ایک شعر اس میں کا بھی خیال میں ہے :

نصیر الدین بے چارہ تو رستہ طوس کا لیتا

نہ ہوتے شحنہ دہلی اگر یاں میرزا خانی​

لطیفہ : ایک دفعہ کئی بادشاہی گاؤں سرکش ہو گئے۔ شاہ نظام الدین کہ شاہ جی مشہور تھے اور دربار میں مختار تھے، فوج لے کر گئے اور ناکام پھرے۔ ان کی نوکری میں بادشاہی نوکروں نے تکلیف پائی تھی، اس پر بھی شاہ نصیر نے ایک نظم لکھی، جس کا مطلع یہ تھا۔

کیا پوچھتے ہو یارو بیٹھے تھے زہر کھائے

شکر خدا کے بارے پھر شاہ صاحب آئے​

لطیفہ : دلی میں ایک منشی ہندو تھے۔ نجیا نام رنڈی پر مسلمان ہو گئے۔ شاہ صاحب نے فرمایا :

جس طرف تو نے کیا ایک اشارہ نہ جیا

نجیا آہ تری چشم کا مارا نہ جیا​

لطیفہ : عیسیٰ خاں اور موسیٰ خاں دو بھائی دلّی میں تھے (ذات کے جلاہے تھے)، مال و دولت کی بابت دونوں میں جھگڑا ہوا ۔ عیسیٰ خاں ناکام ہوئے۔ موسیٰ خاں نے کچھ عدالت کے زور سے کچھ حکمت عملی سے سارا مال مار لیا۔ شاہ صاحب نے بطور ظرافت چند شعر کا قطعہ کہا۔ ایک مصرع یاد ہے اور وہی قطعہ کی جان ہے۔

مصرعہ : ہوئی آفاق میں شہرت کہ عیسیٰ خاں کا گھر موسا​

لطف یہ کہ دونوں بھائی شاعر تھے۔ ایک کا تخلص آفاق دوسرے کا شہرت تھا، ان میں سے کسے بے مغزے نے کچھ واہیات بکا تھا، شاہ صاحب کے بزرگوں کی خوبیاں بیا کر کے خود ان کی شکایت کی تھی، اور چانکہ روشن پورہ میں رہتے تھے، اس کا اشارہ کر کے کہا تھا۔

بعد ان سب کے شاہ صاحب نے

خوب روشن پورہ کیا روشن​

مرزا مغل بیگ نے خدمت وزرات میں نوکوان شاہی کو ناخوش کیا۔ اس موقع پر ہر ایک شخص نے اپنے اپنے حوصلہ کے بموجب دل کا بخار نکالا۔ ایک صاحب نے تاریخ کہی ۔

ہنس کے ہاتف نے کہا اسکو کہ واہ

کیا ہی آنٹی میں وزارت آ گئی​

شاہ صاحب نے بھی ایک قطعہ کہا۔ اس کے دو شعر یاد ہیں۔

تانے بانے پر نہ کر دنیا کے ہرگز اعتبار

غور کر چشم حقیقت سے کہ سر پر کوچ ہے


توڑ کر تو اسطرف سے اسطرف کو جوڑ لے

تو تو مومن ہے وگرنہ مومنوں کی پوچ ہے​

شاہ نصیرؔ مرحوم اور شیخ ابراہیم ذوقؔ سے بھی معرکے ہوئے ہیں۔ دیکھو ان کے حال میں۔

لطیفہ : دکن کی سرکار میں دستور تھا کہ دن رات برابر کاروبار جاری رہتے تھے۔ مختلف کاموں کے وقت مقرر تھے۔ جس صیغہ کا دربار ہو چکا، اس کے متعلق لوگ رخصت ہوئے، دوسرے صیغہ کے آن حاضر ہوئے۔ اسی میں صاحب دربار نے اٹھ کر ذرا آرام لے لیا۔ ضروریات سے فارغ ہوئے اور پھر آن بیٹھے، چنانچہ مشاعرہ اور متاثرہ کا دربار رات کے پچھلے پہر ہوتا تھا، ایک موقع پر کہ نہایت دھوم دھام کا جلسہ تھا۔ تمام باکمال اہل دکن اور اکثر اہل ایران موجود تھے۔ سب کی طبیعتوں نے اپنے اپنے جوہر دکھائے۔ خصوصاً چند شعرائے ایران نے ایسے ایسے قصائد سنائے کہ لب و دہن پر حرت آفریں نہ چھوڑا۔ شاہ نصیرؔ کی حسن رسائی اور اخلاق نے دربار کے چھوٹے بڑے سب تسخیر کر لئے تھے۔ چانچہ شمع قریب پہنچی تو ایک خواص نے سونے کا عصا ہاتھ میں، ہزار بار، سو کا دوشالہ کندھے پر ڈالے کھڑا تھا، کان میں جھک کر کہا کہ آج آپ غزل نہ پڑھیں تو بہتر ہے۔ آپ وہیں بگڑ کر بولے کہ کیوں؟ اس نے کہا کہ ہوا تیز ہو گئی۔ (یعنی کلام کا سرسبز ہونا مشکل ہے)۔ یہ خفگی سے ٹھوڑی پر ہاتھ پھیر کر بولے کہ ایسا تو میں خوبصورت بھی نہیں کہ کوئی صورت دیکھنے کو نوکر رکھے تا، یہ نہیں تو پھر میں ہوں کس کام کا، اس قیل و قال میں شمع بھی سامنے آ گئی، پھر جو غزل سنائی تو سب کو لٹا دیا۔

لطیفہ : قطع نظر اس سے کہ شعر کے باب میں طبع حاضر رکھتے تھے، حاضر جوابی میں برق تھے، چنانچہ ایک دن سلطان جی کی سترھویں میں گئے اور باؤلی میں جا کر ایک طاق میں بیٹھ گئے۔ حقّہ پی رہے تھے کہ اتفاقاً ایک نواب آ نکلے۔ شاہ صاحب سے صاحب سلامت ہوئی، وہیں بہت سی ارباب نشاط بھی حاضر تھیں اور ناچ ہو رہا تھا، اس عالم زرق برق پر اشارہ کر کے نواب صاحب نے فرمایا کہ استاد آج آپ بھی بالائے طاق ہیں۔ بولے جی ہاں جفت ہونے کو بیٹھا ہوں، آئیے تشریف لائیے۔

لطیفہ : ایک دن دکن کو چلے، نواب جھجھّر مدت سے بلاتے تھے۔ اب چونکہ مقام مذکورہ سرراہ تھا، اور گرمی شدت سے پڑتی تھی، برابر سفر بھی مشکل تھا، اس لئے وہاں گئے اور کئی دن مقام کیا، جب چلنے لگے تو رخصت کی ملاقات کو گئے، نواب نے کہا کہ گرمی کے دن ہیں، دکن کا سفر دور دراز کا سفر ہے۔ خدا پھر خیر و عافیت سے لائے مگر وعدہ فرمائیے کہ اب جھجھّر میں کب آئیے گا، ہنس کر بولے کہ جھجھّر کی چاہ تو وہی گرمی میں۔

شاہ صاحب کا ایک مشہور شعر ہے۔

چرائی چادر مہتاب شب میکش نے جیحوں پر

کٹورا صبح دوڑانے لگی خورشید گردوں پر​

نواب سعادت یار خاں رنگینؔ، مجالس رنگین میں فرماتے ہیں کہ ایک جلسہ میں اس شعر کی بڑی تعریف ہو رہی تھی، میں نے اس میں اصلاح دی کہ

مصرعہ :چرائی چادر مہتاب شب بادل نے جیحوں پر​

ہو تو اچھا ہے، سبب یہ کہ جب بادل چاند پر آتا ہے تو چادر مہتاب نہیں رہتی ہے گویا چوری ہو جاتی ہے، یہاں چور تو زمین پر ہے اور مضمون عالم بالا پر، قصہ زمین برسر زمین ہوتا ہے، عالم بالا کے لئے چور بھی آسمانی ہی چاہیے، کسی شخص نے شاہ صاحب سے بھی جا کر کہا، وہ بہت خفا ہوئے اور کہا کہ نواب زادہ ہونا اور بات ہے اور شاعری اور بات ہے۔ خاں صاحب یہ خبر سن کر شاہ صاحب کے پاس گئے اور معذرت کی۔

مگر میرے نزدیک شاہ صاحب نے کچھ نامناسب نہیں کہا، چاند آسمان پر ہوتا ہے، چاندنی زمین پر ہوتی ہے اور چاندنی کا لطف میکش اڑاتا ہے، بادل کیا اڑائے گا اور میکش نہ ہو گا تو شعر غزلیت کے رتبہ سے گر جائے گا۔

لطیفہ : دیہاتی جاگیر کے تعلق سے ایک تحصیلدار صوفی پت کے پاس ملاقات کو گئے اور کچھ رنگترے دلی سے بطور سوغات ساتھ لے گئے۔ تحصیلدار نے کہا کہ جناب شاہ صاحب رنگتروں کی تکلیف کیا ضرور تھی۔ آپ کی طرف سے بڑا تحفہ آپ کا کلام ہے، ان رنگتروں کی حسن تشبیہ میں کوئی شعر ارشاد فرمائیے۔ اسی وقت رباعی کہی اور سنائی۔

اے ببر برج آسمان اقبال

ان رنگتروں پر غور سے کیجیے گا خیال​


یہ تذر حقیر ہو قبول خاطر

پردے میں شفق کے ہیں گرہ بند ہلال

غزلیں

زیب تن گرچہ ہے گل پیرہن سرخ ترا
لیکن انجام یہ ہو گا کفن سرخ ترا

مجکو کہتا ہے وہ نکلا ہے شفق میں یہ ہلال
یا نمودار ہے زخم کہن سرخ ترا

دسترس پاؤں تک اس شوخ کے تجکو ہی یہاں
کیونکہ رتبہ نہ ہو اے گلبدن سرخ ترا

شیشہ بادہ گلرنگ ٹپک دے ساقی
جامہ سبزمیں دیکھے جو تن سرخ ترا

آستین سے یہ لگا کہنے وہ تلوار کو پونچھ
بن گیا سورج یم خون شکن سرخ ترا

رنگ نیلم ہی نہیں رنگ مسی کی یہ نمود
لب بھی ہے غیرت لعل یمن سرخ ترا

سچ بتا تو مجھے سوفار خد تگ قاتل
لہو کس کس کا ہیے گا دہن سرخ ترا

خاک باہم ہو شرارت سے ہم آغوش نصیرؔ
صاف ہے شعلہ آتش بدن سرخ ترا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


خال پشت لب شیریں ہے عسل کی مکھّی
روح فرہاد لپٹ بن کے جبل کی مکھّی

سنگ و خشت در و دیوار افتادہ کو نہ دیکھ
ہاتھ ملتی ہے پتھوڑا کے محل کی مکھّی

بن گیا ہوں میں خیال کمر یاء میں بور
نہ ترے زور کی طاقت ہے نہ بل کی مکھّی

تیرہ بختاں ازل کا کبھی دیکھا نہ فروغ
شب کو جگنو کی طرح اڑ کے نہ جھلکی مکھّی

بیٹھنے سے ترے ہم سمجھے لب یار کر قند
بات مشکل تھی مگر تو لے یہ حل کی مکھّی

ان کو کیا کام توکل سے جو بن جاتے ہیں
قاب بریانی پہ ہر اہل دول کی مکھّی

ہو گیا ہے یہ تری چشم کا بیمار نحیف
نہ اڑا سکتا ہے منھ کہ نہ بغل کی مکھّی​

ریس پروانہ جانسوز کی کرتی تو ہے، پر
نگہ شمع میں ہو جائے گی ہلکی مکھّی

صنعت لعبت چیں دیکھ دلا جو کر تو
دیکھنی گر تجھے منظور ہے کل کی مکھّی

دلربا قہرفسوں ساز ہیں بنگالہ کے
آدمی کو وہ بناتے ہیں عسل کی مکھّی

سخن اپنا جو شکر ریز معانی ہے نصیرؔ
ہے ردیف اس لئے اس شعر و غزل کی مکھّی

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


سدا ہے اس آہ و چشم تر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
نکل کے دیکھو ٹک اپنے گھر سے، فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

وہ شعلہ رو ہے سوار تو سن اور اسکا تو سن عرق فشاں ہے
عجب ہے ایک سیر دوپہر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

ہنسے ہے کوٹھے پہ یوسف اپنا میں زیر دیوار رو رہا ہوں
عزیز دیکھو مری نظر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

پتنگ کیوں کر نہ ہووے حیران کہ شمع سب کو دکھا رہی ہے
بچشم گریان و تاج زر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

نہا کے افشاں چنو جبیں پر نچوڑو زلفوں کو بعد اس کے
دکھاؤ عاشق کو اس ہنر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

کہاں ہے جوں شعلہ شاخ پر گل کدھر ہے فصل بہار شبنم
نیا ہے اعجاز طرفہ ترسے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

کرو نہ دریا پہ مے کشی تم ادھر کو آؤ تو میں دکھاؤں
سر شک و ہر نالہ جگر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں​

کدھر کو جاؤں نکل کے یارب کہ گرم و سرد زمانہ مجھ کو
دکھائے ہے شام تک سحر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

وہ تیغ کھینچے ہوئے ہے سر پر میں سر جھکائے ہوں اشک ریزاں
دکھاؤں اے دل تجھے کدھر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

غضب ہے چیں بر جبیں وہ کیا بدن سے ٹپکے بھی ہے پسینہ
عیاں ہے یارو نئے ہنر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

نصیر لکھی ہے کیا غزل یہ کہ دل تڑپتا ہے سن کے جس کو
بندھے ہے کب یوں کسی بشر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

نہاں ہے کب چشم ہر بشر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں
ہے اس نگہ سے اس اشک تر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

دکھا کے تم شہ نشیں پہ جلوہ جو دیکھو فوارہ کا تماشا
تو یہ صدا آئے بام و در سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

وہ مہروش پشت فیل پر ہے اور اس کی خرطوم آب افشاں
عجب ہے تشبیہ جلوہ گر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

وہ طفل ترسا جبیں پہ قشقہ جو کھینچ سورج کو دیوے پانی
تو کیوں نہ دل دیکھنے کو ترسے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

دوپٹہ سر پر ہے بادلے کا گلاب پاس اس کے ہاتھ میں ہے
نہ کیونکر چمکے نہ کیونکر برسے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

تو اپنی پگڑی پہ رکھ کے طرہ جو کھیلے پچکاریوں سے ہولی​
عیاں ہو نیرنگی دگر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

وہاں وہ غرفہ میں تاب رخ ہے یہاں یہ ابر مژہ پہ نم ہے
یہ حسن الفت کے ہے ثمر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

عجب ہے کچھ ماجرا یہ ساقی کہ غل مچایا ہے میکشوں نے
مدام یاں دیکھ ابر ترسے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

وہ شوخ جھرنے کی سیر کر کے پھسلنے پتھر پر جا کے بیٹھا
پکاری خلقت ادھر ادھر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

نصیر صد آفریں ہے تجھ کو کہ اہل معنی پکارتے ہیں
عجب ہے مضمون تازہ تر سے فلک پہ بجلی زمین پہ باراں

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


لو لگ رہی ہے جس سے وہ شمع رو نہ آیا
بل بے تری شرارت یانتک کبھو نہ آیا

ہو اس دہن سے روکش سیلی صبا کی کھائی
غنچہ کے آہ منھ سے کس دن لہو نہ آیا

دنداں دکھا کے مت ہنس اے بخیہ گریباں
چاک جگر کا ہم کو طور رفو نہ آیا

کیا جانے یہ گیا تھا کس منھ سے روکشی کو
آئینہ واں ہے لیکر خاک آبرو نہ آیا

برگشتہ بخت ہم وہ اس دور میں ساقی
لب تک کبھو ہمارے جام و سبو نہ آیا

موج سرشک سے ہے رونق قبائے تن کی
کیونکر کہوں کہ اسکو کار رفو نہ آیا

آخر کو کہکشاں ہے یکسر وہ مانگ نکلی
اس باب میں ہماری فرق ایک مو نہ آیا

کشتی دل تو دائم موج خطر میں ڈوبی
چیں بر جبیں ہو کس دن وہ روبرو نہ آیا

کیونکر یہ ہاتھ اپنا پہنچے گا تا گریباں
دست خیال جس کے دامن کو چھو نہ آیا

اپنی بھی بعد مجنوں یارو ہوا بندھی ہے
لے گرد باد خیمہ کب کو بکو نہ آیا​

نا محرموں سے تم نے کھلوائے بند محرم
میں تو بھی آہ لے کر کچھ آرزو نہ آیا

ہر دم نصیرؔ رہ تو امید وار رحمت
تیری زباں پہ کس دن لَا تَقنَطُوا نہ آیا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


اے اشک رواں ساتھ لے آہ جگری کو
عاشق کہیں بے فوج علم اٹھ نہیں سکتا

سقف فلک کہنہ میں کیا خاک لگاؤں
اے صعف دل اس آہ کا تھم اٹھ نہیں سکتا

سِر معرکہ عشق میں آساں نہیں دینا
گاڑے ہے جہاں شمع قدم اٹھ نہیں سکتا

ہے جنبش مژگاں کا کسی کی جو تصور
دِل سے خلش خار الم اٹھ نہیں سکتا

دل پر ہے مرے خیمہ ہر آبلہ استاد
کیا کیجئے کہ یہ لشکر غم اٹھ نہیں سکتا

ہر جا متجلّی ہے وہی پردہ غفلت
اے معتکف دیر و حرم اٹھ نہیں سکتا

یوں اشک زمین پر ہیں کہ منزل کو پہنچ کر
جوں قافلہ ملک عدم اٹھ نہیں سکتا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


شب کو کیونکر تجھ کو ہے پھبتا سر پر طرہ ہار گلے میں
جوں پرویں دہالہ مہ تھا سر پر طرہ ہار گلے میں

رونق سریاں داغ جنوں ہے اشک مسلسل زیب گلو ہے
چاہیے تجھ کو غیرت لیلا سر پر طرہ ہار گلے میں

شعلہ کہاں آنسو ہیں کدھر شب شمع رکھی تھی محض میں
تاج اور زر اور موتیوں کا سا سر پر طرہ ہار گلے میں

بال پریشاں ہیں کاکل کے پیچ گلے میں پگڑی کے
یوں رکھتا ہے وہ متوالا سر پر طرہ ہار گلے میں​

حق میں ہے میرے طائروں کے باز کا چنگل دام کا حلقا
اے بت کافر مجھ کو دکھلا سر پر طرہ ہار گلے میں

شملے اور تسبیح کے بدلے شیخ جی صاحب رکھنے لگے ہیں
کیونکہ نہ دیکھیں رند تماشا سر پر طرہ ہار گلے میں

رشک چمن تو سیر کرے گا جبکہ کنار حوض و لب جو
فوارہ اور پھول رکھے گا سر پر طرہ ہار گلے میں

عکس شعاع جہر نہیں یہ بیل چنبیلی لپٹی ہے
سرو چمن نے کیا ہے پیدا سر پر طرہ ہار گلے میں

کیفیت کیا ہو بن ساقی سوئے چمن طاؤس اور قمری
ابر و ہوا میں رکھیں تنہا سر پر طرہ ہار گلے میں

ہے یہ تمنا میرے جی میں یوں تجھے دیکھوں بادہ کشتی میں
ہاتھ میں ساغر بر میں مینا سر پر طرہ ہار گلے میں

اور بدل کے ردیف و قوانی لکھئے غزل اس بحر میں جلدی
تم نے نصیرؔ اب خوب نبھایا سر پر طرہ ہار گلے میں

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


وقت نماز ان کا قامت گاہ خدنگ و گاہ کمال
بن جاتے ہیں اہل عبادت گاہ خدنگ و گاہ کمال

مرد جوانی میں تو ہے سیدھا پیری میں جھک جاتا ہے
قوت و ضعف کی ہے یہ علامت گاہ خدنگ و گاہ کمال

بادہ کشی کے سکھلاتے ہیں کیا ہی قرینے ساون بھادوں​
کیفیت کے ہم نےجو دیکھا دو ہیں مہینے ساون بھادوں

چھوٹتے ہیں فوارہ مژگان روز و شب ان آنکھوں سے
یوں نہ برستے دیکھے ہوں گے مل کے کسی نے ساون بھادوں

ٹانکنے کو پھرتی ہے بجلی اس میں گوٹ تمامی کی
دامن ابر کے ٹکڑوں کو جب لگتے ہیں سینے ساون بھادوں

بھولے دم کی آمد و شد ہم یاد کر اس جھولے کی پینگیں
سوجھے ہے بے یار نہ دیں گے آہ یہ جینے ساون بھادوں

کیونکہ نہ یہ دریائے تگرگ اے بادہ پرستو برسائیں
کان گہر چھٹ زر کے رکھتے ہیں گنجینے ساون بھادوں

کان جواہر کیونکہ نہ سمجھے کھیت کو دہقان اولوں سے
برساتے ہیں موتیوں میں ہیرے کے نگینے ساون بھادوں

ابرسیہ میں دیکھی تھی بگلوں کی قطار اس شکل سے ہم نے
یاد دلائے پھر کے ترے دنداں مسّی نے ساون بھادوں​