آب حیات/شاہ حاتم
دستور دنیا کا یہ ہے کہ بیٹا باپ کے نام سے اور شاگرد اپنے نامی اُستاد کے نشان سے روشناس ہوتا ہے مگر اس حاتم کو نصیبے کا بھی حاتم کہنا چاہیے جو اِس نام سے نشان دیا جائے کہ وہ اُستاد سودا کا تھا، خوشا نصیب اُس باپ کے جس کی نسل کمال سے وہ فرزند پیدا ہوا کہ خانوادہ کمال کے لئے باعثِ فخر شمار کیا جائے ان کا تخلص حاتم اور شیخ ظہور الدین نام تھا، والد کا نام فتح الدین تھا، خود کہا کرتے کہ ظہور میرے تولد کی تاریخ ہے، رہنے والے خاص شاہجہاں آباد کے تھے۔ یہ معلوم نہیں کہ بزرگ ان کے کہاں سے آئے، کسی تذکرہ سے ان کی علمیت تحصیلی کا حال معلوم نہیں ہوتا ہے نہ کچھ اُن کے کلام سے ثابت ہوتا ہے مگر اس قدر استعداد ضرور رکھتے تھے کہ اُن کی انشاء پردازی میں خلل نہیں آنے دیتی، اور یہ جوہر اس عہد کے شریف خاندانوں کے لئے عام تھا، اصل حال یہ ہے کہ بعد عالمگیر کے جب اولاد میں کشا کشی ہوئی اور سلطنت تباہ ہو گئی تو جو شرفاء منصب دار عہدہ دار تھے، روز کے فسادوں سے دل شکستہ ہو گئے، خصوصاً جبکہ اُدھر مرہٹہ نے ادھر سکھ نے زور پکڑا اور قیامِ سلطنت کی طرف سے بالکل مایوس ہوئے تو اکثروں نے نوکری چھوڑ کر بسبب بے علمی کے مختلف حرفے اور پیشے اختیار کر لئے اور بعض لوگ باوجودیکہ صاحبِ علم تھے مگر دُنیا سے دل برداشتہ ہو کر چھوڑ ہی بیٹھے۔
شاہ حاتم پہلے ہی سپاہی پیشہ تھے، عمدۃ الملک امیر خاں کی مصاحبت میں عزت اور فارغ البالی بلکہ عیش و عشرت سے بسر کرتے تھے اور چونکہ محمد شاہی دَور تھا اِس لئے آئین زمانہ کے بموجب جو جو اِس وقت کے نوجوانوں کے شوق تھے سب پورے کرتے تھے، دلی میں قدم شریف کے پاس میر بادل علی شاہ کا تکیہ ایسے رند مشرب لوگوں کا ٹھکانا تھا، یہ بھی وہیں جایا کرتے تھے، چنانچہ فقیر کی صحبت نے ایسا اثر کیا کہ انھی کے مرید ہو گئے، رفتہ رفتہ سب گناہوں سے توبہ کی بلکہ دانہ کی گردش نے دنیا کے تعلقات سے بھی توبہ کروا دی، توکل پر گزارہ کیا اور فقط ایک رومال اور ایک پتلی سی چھڑی جو کہ ہندوستان کے فقرائے آزاد منش کا تمغہ ہے، وہ پاس رہ گئی۔
شاہ موصوف باوجودیکہ نہایت مہذب اور متین تھے اور عمر میں بھی سن رسیدہ ہو گئے تھے، مگر بہت خوش مزاج اور نہایت خلیق اور ظریف تھے۔
فقیری اختیار کر لی تھی مگر بانکوں (لفظ بانکہ اگرچہ آج کل ہر ایک شخص بولتا ہے مگر اس کی اصلیت سے بہت کم لوگ واقف ہیں، یہ دلی میں ایک خاص فرقہ تھا، چنانچہ سید انشاء اللہ خاں مرحوم ایک مقام پر ان کی تصویر کھینچتے ہیں، بانکہ، بانکہ بادر شہرے باشند، خواہ در دہلی خواہ در بلادِ دکن، خواہ در بلادِ بنگار، خواہ در شہرہائے پنجاب ہمہ را یک وضع و یک لباس می باشد، کج ادا کج راہ رفتن و خودرا بسیار دیدن، دہر مؤنث را مذکر ادا کردن شعارِ ایشاں است، چنانچہ ہمارے بکری را ہمارا بکرا گویند، مثل افغاناں در شہر دستار و زلف و خلیل دا وچہ گفتن ایشاں مبدل نمی شود۔) کی طرح دوپٹہ سر پر ٹیڑھا ہی باندھتے تھے، راج گھاٹ کے رستہ میں قلعہ کے نیچے شاہ تسلیم (شاہ تسلیم ایک نیک مرد فقیر تھے اور خود شاعر تھے۔ چونکہ ان کا تکیہ بھی ایک دلکشا اور با فضا مقام پر تھا اس لئے اکثر شعر و سخن کے شائق تھی صبح شام وہاں جا کر بیٹھا کرتے تھے، سعادت یار خان رنگین، محمد امان نثار جن کا ذکر میر کے حال میں ہے اور اکثر شعراء حاتم کے شاگرد تھے۔) کا تکیہ تھا، وہاں کچھ چمن تھے، کچھ درختوں کا سایہ تھا، سامنے فضا کا میدان تھا، شام کو روز وہاں جا کر بیٹھا کرتے تھے اور چند احباب اور شاگردوں کے ساتھ شعر و سخن کا چرچا رکھتے تھے، چنانچہ ۵۰ برس تک اس معمول کو نباہ دیا، گرمی، جاڑا، برسات، آندھی آئے، مینھ ائے، وہاں کی نشست قضا نہ ہوتی تھی، اہلِ دہلی کے قدیمی بزرگوں کا دستور تھا کہ جو بات ایک دفعہ اختیار کر لیتے تھے، پھر اُسے مرتے دم تک نباہ دیتے تھے اور اسے وضعداری یا پاس وضع کہتے تھے، یہ ایک قانون تھا کہ آئین شریعت کے برابر پہلو مارتا ہوا جاتا تھا۔ ایسی پابندیاں بعض معاملات میں استقلال بن کر ملک اور اہلِ ملک کے لئے قابل فخر ہوتی ہیں اور بعض جزئیات میں تکلیف بیجا ہو کر خاندانوں اور گھرانوں کو بلکہ عام ہو کر ملک کو برباد کر دیتی ہیں۔
شیخ غلام ہمدانی مصحفی اپنے تذکرہ میں اِن کی شاعری کی ابتدا یہ لکھتے ہیں کہ سنہ ۳ محمد شاہی عہد میں دلی کا دیوان دکن سے دہلی میں آیا۔ اس زمانہ کے حال بموجب وہی غنیمت تھا، اس واسطے خاص و عام میں اس کا بہت چرچا ہوا۔
شاہ حاتم کی طبیعت ِ موزوں نے بھی جوش مارا، شعر کہنا شروع کیا اور ہمت و لیاقت سے اُسے انتہا کو پہنچایا، پہلے رمز تخلص کرتے تھے پھر حاتم ہو گئے۔یہ پہلے شعرائے طبقہ اول کے منتخب شاعروں میں تھے، اس وقت بھی زبان ان کی فصیح اور کلام بے تکلف تھا، مگر پھر طبقہ دوم میں داخل ہو گئے، کلیات اِن کا بہت بڑا ہے جو اکثر زبانِ قدیم کی غزل اور قصائد اور رباعیات و مثنوی وغیرہ پر مشتمل ہے، کتبخانہ ہائے قدیم لکھنؤ اور دہلی میں دیکھا، وہ شاہ آبرو اور ناجی کی طرز میں ہے لیکن آخر عمر میں کلیات مذکور سے خود انتخاب کر کے ایک چھوٹا سا دیوان مرتب کیا، اس کا نام "دیوان زادہ" رکھا کیونکہ پہلے دیوان سے پیدا ہوا تھا، وہ صاحبزادہ بھی پانچ ہزار سے زیادہ کا مال بغل میں دبائے بیٹھا ہے، بہر حال یہ کارنامہ ان کا استحقاق پیدا کرتا ہے، کہ طبقہ دوم سے نکال کر طبقہ سوم کی اولیت کا طرہ ان کی زیب دستار کیا جائے یا اس کا ایک رکنِ اعظم قرار دیا جائے، اُنھوں نے دیوان زادہ پر ایک دیباچہ بہت مفید لکھا ہے۔ خلاصہ اُس کا یہ ہے "خوشہ چینِ خرمنِ سخنوارانِ عالم، بصورتِ محتاج و بمعنی حاتم کہ از 1139ھ تا 1169ھ کہ چہل سال باشد، عمر دریں فن صرف کردہ در شعر فارسی پیر و مرزا صائب و در ریختہ ولی را استادمے واند، اول کسیکہ دریں فن دیوانِ ترتیب نمودہ اور بود فقیر دیوان قدیم پیش از نادر شاہی در بلادِ ہند مشہور دارد بعد ترتیب آں تا امروز کہ سنہ 3 عزیز الدین عالمگیر ثانی باشد، ہر رطب و یا بس کہ از زبانِ این بے زباں برآمدہ، داخل دیوانِ قدیم نمودہ کلیات مرتب ساختہ، از ہر ردیف دو سہ غزلے دا زہر غزل دوسہ بیتے ورائے مناقب و مرثیہ و چند مخمس و مثنوی از دیوانِ قدیم نیز داخل نمودہ بہ دیوان زادہ مخاطب ساختہ و سرخی غزلیات بسہ قسم منقسم ساختہ یکے طرحی، دوم فرمائشی سوم جوابی، تا تفریقِ آں معلوم گردو، و معاصران فقیر، شاہ مبارک آبرو، و شرف الدین مضمون و مرزا جان جاناں مظہر و شیخ احسن اللہ احسن و میر شاکر ناجی و غلام مصطفے، یکرنگ است و لفظ در، و برواز و الفاظ و افعال دیگر کہ در دیوان قدیم خود تقید دارو، ور نیولا از دہ دو از دہ سال اکثر الفاظ را از نظر انداختہ و الفاظ عربی و فارسی کہ قریب الفہم و کثیر الاستعمال باشند و روزمرہ دہلی کہ میرزایانِ ہند و فصیحانِ رند، در محاورہ آرند منظور دارد" پھر ایک جگہ کہتے ہیں زبانِ ہندی بھاکا را موقوف کردہ محض روزمرہ کہ عام فہم و خاص پسند باشد اکتیار نمود، وشمہ ازاں الفاظ کہ تقید دارد، بہ بیان مے آرد، چنانچہ عربی و فارسی مثلاً راتسبی و صحیح را صحی و بیگانہ رابگانہ و یوانہ را دوانہ و مانند آن، یا متحرک را ساکن را متحرک، مَرض را مرض و نیز الفاظِ ہندی مثل نین، و جگ دست وغیرہ و لفظ مرا، و میرا، و ازیں قبیل کہ براں قباحت لازم آید، یا بجائے سی ستی، اُدھر را، اودھر، و کدھررا، کیدھر کہ زیادتی حرف باشد، یا بجائے پر، پہ یا، یہاں را، یاں، و، وہاں را واں، کہ در مخرج تنگ بود، یا قافیہ، را، با، ڑا، ہندی، مثل گھوڑا و بورا، دھڑ و سر، و مانند آں، مگر ہائے ہنوز را بدل کردن با الف کہ از عام تا خاص محاورہ دارند، بندہ دریں امر متابعت جمہور مجبوراست، چنانچہ بندہ رابندا، و پردہ را پردہ و انچہ ازیں قبیل باشد دایں قاعدہ را تاکہ شرح و ہد، مختصر کہ لفظے غیر فصیح انشاء اللہ نخواہد بود۔
مضمون ان کے صاف عاشقانہ و عارفانہ ہیں، شعر آپس کی باتیں اور زبان شُستہ و رُفتہ ہے لیکن لفظ اَب، اور یہاں وغیرہ زائد اکثر ہوتے ہیں، غرض اسی دیوان کے دیباچہ میں اپنے شاگردوں کی ذیل میں ۴۵ آدمیوں کے نام درج کرتے ہیں، انھی میں مرزا رفیع بھی ہیں، میاں ہدایت (اُردو کے ایک فصیح اور باکمال شاعر تھے، خواجہ میر درد کے ہمعصر تھے اور ان سے بھی اصلاح لیتے تھے، چنانچہ انہی کا شعر ہے :
ہدایت کہا ریختہ جب سے ہم نے
رواج اُٹھ گیا ہند سے فارسی کا
سودا کے ذکر میں ایک لطیفہ اِن کے حال سے متعلق ہے (دیکھو صفحہ) کی زبانی ہدایت ہے کہ شاہ حاتم جب سودا کی غزل کو اصلاح دیتے تھے تو اکثر یہ اشعار پڑھا کرتے تھے :
از ادب صائب خموشم ورنہ در ہردا دیئے
رتبہ شاگردیِ من نیست اُستادِ مرا
اور احباب سے کہتے تھے کہ یہ شعر صائب نے میری اُستادی اور مرزا رفیع کی شاگردی کے حق میں کہا ہے، لکھنؤ سے مرزا کے قصیدے اور غزلیں آتیں تو آپ دوستوں کو پڑھ پڑھ کر سُناتے اور خوش ہوتے۔
سعادت یار خاں رنگین ان کے شاگرد اپنی مجالسِ رنگیں میں لکھتے ہیں کہ تیسرے پہر کو بھی اکثر شاہ صاحب کے پاس شاہ تسلیم کے تکیہ میں حاضر ہوا کرتا تھا، ایک دن میاں محمد امان نثار، لالہ مکند رائے فارغ، مِروہے اکبر علی اکبر وغیرہ، چند شاگرد خدمت میں موجود تھے اور میری نومشقی کے دن تھے کہ حسبِ معمول وہاں حاضر ہوا۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ آج رات کو مطلع کہا ہے :
سَر کو پٹکا ہے کبھو، سینہ کبھو کوٹا ہے
رات ہم ہجر کی دوست سے مزا لوٹا ہے
میاں رنگین لکھتے ہیں، ابتدا سے میرے مزاج میں چالاکی بہت تھی اور شعور کم تھا، اپنی نادانی سے گستاخانہ بول اٹھا کہ اگر مصرع ثانی میں اس طرح ارشاد ہو تو اچھا ہے :
سر کو پٹکا ہے کبھو، سینہ کبھو کوٹا ہے
ہم نے شب ہجر کی دوست سے مزا لوٹا ہے
شاہ صاحب بہت خوش ہوئے، میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور فرمایا آفریں، آفریں، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، انشاء اللہ تمھاری طبیعت بہت ترقی کرے گی، مشق نہ چھوڑنا، ان کی دوستوں میں سے ایک شخص بولے کہ صاحبزادے اُستاد کے سامنے یہ گستاخی زیبا نہ تھی، حضرت نے پھر فرمایا کہ مضائقہ کیا ہے، واللہ میں اسی طرح لکھوں گا۔ بعد اس کے یہ قطعہ پڑھا :
من و آں سادہ دل کہ عیب مرا
ہمچو آئینہ روبرد گوید
نہ چو شانہ بصد زبان و دو رُو
پس سر رفتہ مو بمو گوید
اس میں شک نہیں کہ یہ نیک نیتی اور دریا دلی شاہ حاتم کی قابلِ رشک ہے کیونکہ شعراء میں اپنے لئے خود پسندی اور دوسرے کے لئے ناتواں بینی ایک ایسی عادت ہے کہ اگر اُسے قدرتی عیب کہیں تو کچھ مبالغہ نہیں۔ بلکہ شاگردوں کو استادوں سے دست و گریباں ہوتے دیکھا تو اکثر اِسی فن میں دیکھا، یہ وصف یا اس فرشتہ سیرت میں پایا، یا مرزا محمد علی ماہر میں کہ مرزا محمد افصل سرخوش کے اُستاد تھے۔
نقل :- مرزا محمد علی ماہر عہدِ عالمگیر میں ایک مشاق اور مسلم الثبوت شاعر اپنے زمانہ کے تھے اور مرزا سر خوش اس نے قدیمی شاگرد تھے، مگر طبع مناسب اور کثرتِ مشق سے یہ بھی درجہ کمال کو پہنچ گئے، مرزا ماہر اکثر فرمائش کر کے اِن سے شعر کہوایا کرتے تھے اور یہ سعادت سمجھ کر کہہ دیا کرتے تھے، سرخوش لکھتے ہیں کہ انھوں نے ایک مثنوی بہاریہ تحفتہ العراقین کے ڈھنگ میں لکھی تھی، چنانچہ مطلع میں نے کہہ کر دیا کہ :
اے برسر نامہ گل زملامت
بارانِ بہار شیخ جامت
اور میرے ساقی نامہ کے لئے اُنھوں نے مطلع کہہ دیا :
بود نامہ نشہ بخش ادا
کہ بر سر کشد جامِ حمدِ خدا
پھر لکھتے ہیں کہ ایک شب قطب الدین مائل کے ہاں شعراء کا جلسہ تھا۔ چاندنی رات تھی، سب مہتابی پر بیٹھے تھے، مجھ سے شعر کی فرمائش کی، میں نے اسی دن مطلع کہا تھا وہ پڑھا :
کے توانم دید زاہد جامِ صہبا بشکند
مے پرور نگم حبابے گر یہ دریا بشکند
سب نے تعریف کی اور آدھی رات تک اس کے مصرعے لوگوں کی زبان پر تھے، حکیم محمد کاظم صاحب تخلص کہ اپنے تئیں مسیح البیان بھی کہتے تھے، بار بار یہ شعر
پڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ خدا کی قدرت، ہندوستان میں ایک شخص پیدا ہو، اور فارس کی زبان میں ایسے شعر کہے، دوسرے دن دانشمند خاں کے مکان پر جلسہ ہوا، وہاں میں نہ تھا مگر مرزا ماہر موجود تھے۔ سب نے پھر اس مطلع کا ذکر کیا اور کہا کہ تمھارا شاگرد کتنا خوش فکر نکلا ہے، اُس کے شعر کی کیفیت میں عجب لطف سے کل رات کٹی، آفرین ہے آپ کی محنت پر خوب تربیت کیا، انھوں نے کہا کہ وہ میرے شاگرد نہیں، باہم اتحاد ہے، وہ مجھے شعر دکھاتے ہیں، میں انھیں شعر دکھاتا ہوں۔ حکیم نے کہا، سرخوش سے بارہا گفتگو آئی وہ باصرار کہتے تھے کہ میں شاگرد ہوں۔ ماہر نے کہا کہ بزرگ زادہ ہے جو چاہا کہہ دیا، مجھے اُس کی اُستادی کی لیاقت کب سے ہے، دوسرے دن میں خدمت میں حاضر ہوا، فرمایا کہ تم نے اپنے تئیں میرا شاگرد کیوں کہا۔ مجھے تو فخر ہے کہ تم جیسا میرا شاگرد ہو، مگر دنیا میں ایسے بلند فکر لوگ بھی ہیں کہ وہ مجھ کو اور میرے شعر کو خاطر میں نہیں لاتے، اُن کی نظر میں میرے شاگرد کی کیا قدر و منزلت ہو گی۔ شعراء خدا کے شاگرد ہیں۔ ان کو کسی کی شاگردی کی پرواہ نہیں، شاہ حاتم کا ایک دیوان فارسی میں بھی ہے مگر بہت مختصر میں نے دیکھا وہ 1179ھ کا خود اُن کے قلم کا لکھا ہوا تھا۔ غزل 90 صفحے، رباعی و فرد وغیرہ ۶۵ صفحے، ولادت ان کی 1111ہجری ہے اور ۹۶ برس کی عمر میں ماہ رمضان 1207ھ میں دہلی میں فوت ہوئے اور وہیں دلی دروازہ کے باہر دفن ہوئے۔ مگر مصحفی نے تذکرہ فارسی میں لکھا ہے کہ ۱۱۹۶ھ میں فوت ہوئے اور ۸۳ برس کی عمر پائی۔
یار کا مجھ کو اس سبب سے ڈر ہے
شوخ ظالم ہے اور سِتمگر ہے
دیکھ سرو چمن ترے قدکوں
خجل ہے پا بگل ہے بے بر ہے
حق میں عاشق کے تجھ لباں کا بچن
قند ہے نیشکر ہے، شکر ہے
کیوں کہ سب سے تجھے چھپا نہ رکھوں
جان ہے دل ہے دل کا انتر ہے
مارنے کو رقیب کے حاتم
شیر ہے، ببر ہے، دھنتر ہے
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
یہاں طالعوں سے ملتا ہے پیارا
عبث دیکھے ہے زاہد استخارا
میں پایا ہوں ولے تجھ چشم کا بھید
نہ مانگوں کا کبھی ان کا اشارا
نہالِ دوستی کو کاٹ ڈالا
دکھا کر شوخ نے اَبرو کا آرا
لیا اس گلبدن کا ہم نے بوسہ
تو کیا چوما رقیبوں نے ہمارا
کئی عالم کئے ہیں قتل اِن نے
کرے کیا ایکلا حاتم بچارا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
چھپا نہیں جا بجا حاضر ہے پیارا
کہاں وہ چشم؟ جو ماریں نظارا
جدا نہیں سب ستی تحقیق کر دیکھ
ملا ہے سب سے اور سب سے ہے نیارا
مسافر اُٹھ تجھے چلنا ہے منزل
بجے ہے کوچ کا ہر دم نقارا
مثالِ بحر موجیں مارتا ہے
کیا ہے جس نے اِس جگ سوں کنارا
سیانے خلق سے یوں بھاگتے ہیں
کہ جوں آتش ستی بھاگے ہے پیارا
سمجھ کر دیکھ سب جگ سیکھ ماہی
کہاں ہے گا سکندر کاں (کہاں ) ہے دارا
کہیں ہیں اہلِ عرفاں اس کو جیتا
جو مر کر عشق میں دنیا سوں ہارا
صفا کر دل کے آئینہ کو حاتم
دیکھا چاہے سجن گر آشکارا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
جب سُنا موتی نے تجھ دانداں کے موتی کا بہا
آب میں شرمندگی سوں ڈوب جوں پانی بہا
مردماں کو دیکھ کر بسمل ترے کوچہ کے بیچ
ڈر گیا اور چشم سے آنسو کے چاہے خونبہا
اب تمھارے سُرخ ہم نے تاڑ کر پوچھا تھا مول
جوہری کہنے لگے یہ لعل ہے گا بے بہا
حاتم اُس بے مہر نے مچھی نہ دی اس غم ستی
جا کنارے بیٹھ کر اس غم ستی دریا بہا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
آبِ حیات جا کے کسو نے پیا تو کیا
مانند خضر جگ میں اکیلا جیا تو کیا
شیریں لباں سوں سنگ دلوں کو اثر نہیں
فرہاد کام کوہ کنی کا کیا تو کیا
جلنا لگن میں شمع صفت سخت کام ہے
پروانہ یوں شتاب عبث جی دیا تو کیا
ناسور کی صفت ہے نہ ہو گا کبھی وہ بند
جراح زخم عشق کا آ کر سیا تو کیا
محتاجگی سوں مجھ کو نہیں ایک دم فراغ
حق نے جہاں میں نام کو حاتم کیا تو کیا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
خال اُس کے نے دل لیا میرا
تِل میں اِن نے لہو پیا میرا
جان بے درد کو ملا کیوں تھا
آگے آیا مرے کیا میرا
اُس کے کوچہ میں مجھ کو پھرتا دیکھ
رشک کھاتی ہے آسیا میرا
نہیں شمع و چراغ کی حاجت
دل ہے مجھ بزم کا دیا میرا
زندگی درد سر ہوئی حاتم
کب ملے گا مجھے پیا میرا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
کاملوں کا یہ سخن مدت سوں مجھ کو یاد ہے
جگ میں بے محبوب جینا زندگی برباد ہے
بندگی سوں سرو قد اک قدم باہر نہیں
سرو گلشن بیچ کہتے ہیں مگر آزاد ہے
بے مدد زلفوں کے اس کے حُسن نے قیدی کیا
صید دل بے دام کرنا صنعتِ استاد ہے
خلق کہتی ہے بڑا تھا عاشقی میں کوہ کن
تجھ لبِ شیریں کی حسرت میں ہر اک فرہاد ہے
دل نہاں پھرتا ہے حاتم کا نجف اشرف کے بیچ
گو وطن ظاہر میں اس کا شاہجہاں آباد ہے
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
اے خرد مندو مبارک ہو تمھیں فرزانگی
ہم ہوں اور صحرا ہو اور وحشت ہو اور دیوانگی
بے مروت، بے وفا، بے دید اے ناآشنا
آشناؤں سے نہ کر بے رحمی اور بیگانگی
ملکِ دل آباد کیوں کرتا ہے حاتم کا خراب
اے مری بستی خوش آتی ہے تجھے ویرانگی
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*