آب حیات/دیباچہ
آزاد ہندی نہاد کے بزرگ فارسی کو اپنی تیغِ زبان کا جوہر جانتے تھے۔ تخمیناً سو برس سے کل خاندان کی زبان اُردو ہے۔ بزرگوں سے لے کر آج تک زبانوں کی تحقیقات میں کمال سرگرمی اور جستجو رہی، اب چند سال سے معلوم ہوتا ہے اس ملک کی زبان ترقی کے قدم برابر آگے بڑھا رہی ہے، یہاں تک کہ علمی زبانوں کے عمل میں دخل پیدا کر لیا اور عنقریب بارگاہِ علم میں کسی درجہ خاص کیکرسی پر جلوس کیا چاہتی ہے۔ ایک دن اسی خیال میں تھا اور دیکھ رہا تھا کہ کس طرح اس نے ظہور پکڑا، کس طرح قدم بقدم آگے بڑھی، کس طرح عہد بعہد اس درجہ تک پہنچی۔ تعجب ہوا کہ ایک بچہ شاہجہانی بازار میں پھرتا ملے، شعراء اُسے اٹھا لیں اور ملکِ سخن میں پال کر پرورش کریں۔ انجام کو یہاں تک نوبت پہنچے کہ وہی ملک کی تصنیف و تالیف پر قابض ہو جائے۔ اس حالت میں اس کے عہد بعہد کی تبدیلیاں اور ہر عہد میں اس کے با کمالوں کی حالتیں نظر آئیں جس کی وقت بوقت کی تربیت اور اصلاح نے اس بچہ کی اُنگلی پکڑ کے قدم قدم آگے بڑھایا اور رفتہ رفتہ اس درجہ تک پہنچایا کہ جو آج حاصل ہے۔ صاف نظر آیا کہ ہر عہد میں وہ جُدا جُدا رنگ بدل رہا ہے اور اس کے با کمال تربیت کرنے والے وقت بوقت ترکیب اور الفاظ سے اس کے رفتار و اطوار میں اصلاحیں کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس لحاظ سے پانچ جلسے سامنے آئے کہ مسلسل اور متواتر قائم ہوئے اور برخاست ہوئے۔ ایک نے دوسرے کو رخصت کیا اور اپنا رنگ نیا جمایا۔ یہاں تک کہ پانچویں جلسہ کا بھی دور آیا جو کہ اب پیشِ نظر موجود ہے۔ ہر ایک جلسہ میں صدر نشین اور ارکانِ انجمن نظر آئے کہ جن میں عہد بعہد کے بزرگوں کی رفتار و گفتار وضع لباس جُدا جُدا ہے مگر اصلاح کے قلم سے کسی کا ہاتھ خالی نہیں اور اس کام کو ہر ایک اپنا فرض سمجھے ہوئے ہے۔ باوجود اس کے اہلِ مجلس بھی شوق کے دامن پھیلائے ہیں اور قبول کے ہاتھ سینوں پر رکھے ہیں۔ زبان مذکور کی ہر ہر جلسہ میں نئی صورت نظر آئی۔ کبھی بچہ، کبھی لڑکا، کبھی نوجوان، مگر یہ معلوم ہوا کہ دیکھتا ہے تو انھیں کی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور بولتا ہے تو انھیں کی زبان سے بولتا ہے۔ غرضیکہ اس زبان کے رنگ میں اُن کے رفتار گفتار اوضاع، اطوار بلکہ اُس زمانے کے سارے چال چلن پیشِ نظر تھے جس میں اُنہوں نے زندگی بسر کی اور کیا کیا سبب ہوئے کہ اس طرح بسر کی۔ اِن کے جلسوں کے ماجرے اور حریفوں کے وہ معرکے جہاں طبیعتوں نے تکلف کے پردے اُٹھا کر اپنے اصلی جوہر دکھا دیئے۔ ان کے دلوں کی آزادیاں، وقتوں کی مجبوریاں، مزاجوں کی شوخیاں، طبیعتوں کی تیزیاں، کہیں گرمیاں، کہیں نرمیاں، کچھ خوش مزاجیاں، کچھ بے دماغیاں، غرض یہ سب باتیں میری آنکھوں میں اس طرح عبرت کا سُرمہ دیتی تھیں گویا وہی زمانہ اور وہی اہلِ زمانہ موجود ہیں۔ چونکہ میں نے بلکہ میری زبان نے ایسے ہی اشخاص کی خدمتوں میں پرورش پائی تھی، اس لئے ان خیالات میں دل کی شگفتگی کا ایک عالم تھا کہ جس کی کیفیت کو کسی بیان کی طاقت اور قلم کی زبان ادا نہیں کر سکتی لیکن ساتھ ہی افسوس آیا کہ جن جوہریوں کے ذریعے سے یہ جواہرات مجھ تک پہنچے وہ تو خاک میں مل گئے۔ جو لوگ باقی ہیں وہ بجھے چراغوں کی طرح ایسے ویرانوں میں پڑے ہیں کہ ان کے روشن کرنے کی یا اُن سے روشنی لینے کی کسی کو پروا نہیں۔ پس یہ باتیں کہ حقیقت میں اثبات ان کے جوہر کمالات کے ہیں۔ اگر اسی طرح زبانوں کے حوالے رہیں تو چند روز میں صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی اور حقیقت میں یہ حالات نہ مٹیں گے بلکہ بزرگانِ موصوف دنیا میں فقط نام کے شاعر رہ جائیں گے جن کے ساتھ کوئی بیان نہ ہو گا جو ہمارے بعد آنے والوں کے دلوں پر یقین کا اثر پیدا کر سکے۔ ہر چند کلام اُن کے کمال کی یادگار موجود ہیں۔ مگر فقط دیوان جو بکتے پھرتے ہیں بغیر اُن کے تفصیلی حالات کے، اس مقصود کا حق پورا پورا نہیں ادا کر سکتے۔ نہ اُس زمانہ کا عالم اس زمانہ میں دکھا سکتے ہیں اور یہ نہ ہوا تو کچھ بھی نہ ہوا۔ سودا اور میر وغیرہ بزرگانِ سلف کی جو عظمت ہمارے دلوں میں ہے وہ آج کل کے لوگوں کے دلوں میں نہیں۔ سبب پوچھیے تو جواب فقط یہی ہے کہ جس طرح ان کے کلاموں کو ان کے حالات اور وقتوں کی واردات نے خلعت اور لباس بن کر ہمارے سامنے جلوہ دیا ہے اس سے ارباب زمانہ کے دیدہ و دل بے خبر ہیں حق پوچھو تو انہی اوصاف سے سودا سودا، اور میر تقی میر صاحب ہیں ورنہ جس کا جی چاہے یہی تخلص رکھ دیکھے۔ خالی سودا ہے تو جنون ہے اور نرا میر ہے تو گنجفہ کا ایک پتا۔ میرے دوستو زندگی کے معنی کھانا، پینا، چلنا، پھرنا، سو رہنا اور منہ سے بولے جانا نہیں ہے۔ زندگی کے معنی یہ ہیں کہ صفات خاص کے ساتھ نام کو شہرتِ عام ہو اور اُسے بقائے دوام ہو۔ اب انصاف کرو کہ یہ تھوڑے افسوس کا موقع ہے کہ ہمارے بزرگ خوبیاں بہم پہنچائیں۔ انھیں بقائے دوام کے سامان ہاتھ آئیں اور اسی پر نام کی زندگی سے محروم ہیں۔ بزرگ بھی وہ بزرگ کہ جن کی کوششوں سے ہماری ملکی اور کتابی زبان کا لفظ لفظ اور حرف حرف گرانبارِ احسان ہو۔ اِن کے کاموں کا اس گمنامی کے ساتھ صفحہ ہستی سے مٹنا بڑے حیف کی بات ہے۔ جس مرنے پر اُن کے اہل و عیال روئے وہ مرنا نہ تھا۔ مرنا حقیقت میں ان باتوں کا مٹنا ہے جس سے اِن کے کمال مر جائیں گے اور یہ مرنا حقیقت میں سخت غمناک حادثہ ہے۔ ایسے بزرگانِ با کمال کے رویے اور رفتاروں کا دیکھنا اُنھیں ہماری آنکھوں کے سامنے زندہ کر دکھاتا ہے اور ہمیں بھی دنیا کے پیچیدہ رستوں میں چلنا سکھاتا ہے اور بتاتا ہے کہ کیونکر ہم بھی اپنی زندگی کو اتنا طولانی اور ایسا گراں بہا بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ نئے تعلیم یافتہ جن کے دماغوں میں انگریزی لالٹینوں سے روشنی پہنچتی ہے، وہ ہمارے تذکروں کے اس نقص پر حرف رکھتے ہیں کہہ ان سے نہ کسی شاعری کی زندگی کی سرگزشت کا حال معلوم ہوتا ہے نہ اس کی طبیعت اور عادت و اطوار کا حال کھلتا ہے نہ اس کے کلام کی خوبی۔ اور صحت و سقم کی کیفیت کھلتی ہے۔ نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے معاصروں میں اور اس کے کلام میں کن کن باتوں میں کیا نسبت تھی۔ انتہا یہ ہے کہ سالِ ولادت اور سالِ وفات تک بھی نہیں کھُلتا۔ اگرچہ اعتراض ان کا کچھ اصلیت سے خالی نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی معلومات زیادہ تر خاندانوں اور خاندانی با کمالوں اور ان کے صحبت یافتہ لوگوں میں ہوتی ہیں، وہ لوگ کچھ تو انقلاب زمانہ سے دل شکستہ ہو کر تصنیف سے ہاتھ کھینچ بیٹھے۔ کچھ یہ کہ علم اور اُس کے تصنیفات کے انداز روز بروز کے تجربہ سے رستے بدلتے ہیں، عربی فارسی میں اس ترقی اور اصلاح کے رستے سالہا سال سے مسدود ہو گئے۔ انگریزی زبان ترقی اور اصلاح کا طلسمات ہے مگر خاندانی لوگوں نے اول اول اس کا پڑھانا اولاد کے لیے عیب سمجھا اور ہماری قدیمی تصنیفوں ککا ڈھنگ ایسا واقع ہوا تھا کہ وہ لوگ ایسی وارداتوں کو کتابوں میں لکھنا کچھ بات نہ سمجھتے تھے۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو زبانی جمع خرچ سمجھ کر دوستانہ صحبتوں کی نقل مجلس جانتے تھے۔ اس لئے وہ ان رستوں سے اور ان کے فوائد سے آگاہ نہ ہوئے اور یہ اُنھیں کیا خبر تھی کہ زمانہ کا ورق اُلٹ جائے ے گا۔ پُرانے گھرانے تباہ ہو جائیں گے۔ ان کی اولاد ایسی جاہل رہے گی کہ اسے اپنے گھر کی باتوں کی بھی خبر نہ رہے گی۔ ا ور اگر کوئی بات ان حالات میں سے بیان کرے گا تو لوگ اُس سے سند مانگیں گے۔ غرض خیالات مذکورہ بالا نے مجھ پر واجب کیا کہ جو حالات ان بزرگوں کے معلوم ہیں یا مختلف تذکروں میں متفرق مذکور ہیں۔۔ انھیں جمع کر کے ایک جگہ لکھوں اور جہاں تک ممکن ہو اس طرح لکھوں کہ ان کی زندگی کی بولتی چالتی، چلتی پھرتی تصویریں سامنے آن کھڑی ہون اور انھیں حیاتِ جاوداں حاصل ہوں۔ الحمد للہ کہ چند روز میں جس قدر پریشاں خیالات تھے بہ ترتیب جمع ہو گئے اسی واسطے اس مجموعہ کا نام آبِ حیات رکھا اور زبان اُردو کی عہد بعہد کی تبدیلی کے لحاظ سے پانچ دور پر تقسیم کیا اس طرح کہ ہر ایک دور اپنے عہد کی زبان بلکہ اس زمانے کی شان دکھاتا ہے۔ خدا کی درگاہ میں دُعا ہے کہ بزرگوں کے ناموں اور کلاموں کی برکت سے مجھے اور میرے کلام کو بھی قبول عام اور بقائے دوام نصیب ہو۔
آمین یا رب العالمین۔