آب حیات/تیسرا دور/تمہید
اس مشاعرہ میں اُن صاحبِ کمالوں کی آمد آمد ہے جس کے پا انداز میں فصاحت آنکھیں بچھاتی ہے اور بلاغت قدموں میں لوٹے جاتی ہے، زبانِ اُردو ابتداء میں کچا سونا تھی، اِن بزرگوں نے اُسے اکثر کدورتوں سے پاک صاف کیا اور ایسا بنا دیا جس سے ہزاروں ضروری کام اور آرائشوں کے سامان حسینوں کے زیور بلکہ بادشاہوں کے تاج و افسر تیار ہوتے ہیں اگرچہ بہت سے مرصع کار، مینا نگار پیچھے آئے، مگر اِس فخر کا نولکھا ہار انھیں بزرگوں کے گلے میں رہا۔ جب یہ صاحبِ کمال چمن کلام میں آئے تو اپنے بزرگوں کی چمن بندی کی سیر کی، فصاحت کے پھول کو دیکھا کہ قدرتی بہار میں حُسنِ خداداد کا جوبن دکھا رہا ہے۔ چونکہ انھیں بھی ناموری کا تمغہ لینا تھا، اس لئے بڑوں سے بڑھ کر قدم مارنے چاہے۔ یہ گرد و پیش کے میدانوں میں بہت دوڑے، سب پھول کام میں آئے ہوئے تھے، جب سامنے کچھ نہ پایا تو ناچار اپنی عمارتوں کو اونچا اٹھایا، تم دیکھنا وہ بلندی کے مضمون نہ لائیں گے۔ آسماں سے تارے اُتاریں گے، قدر دانوں سے فقط داد نہ لیں گے، پرستش لیں گے، لیکن وہ پرستش کہ سامری کی طرح عارضی نہ ہو، اُن کے کمال کا دامن قیامت کے دامن سے بندھا پاؤ گے، یہ اپنی صنعت میں کچھ کچھ تکلف بھی کریں گے۔ مگر ایسا جیسے گلاب کے پھول پر شبنم یا تصویر پر آئینہ، اِن کا تکلف بھی اصلی لطافت پر کچھ لطف زیادہ کرے گا، اصل کی کوبی پر پردہ نہ ہو گا، تم میر صاحب اور خواجہ میر درد کو دیکھو گے کہ اثر میں ڈوبے ہوں گے، سودا کا کلام باوجود بلندی مضمون اور چستی بندش کے تاثیر کا طلسم ہو گا۔
اتنی بات کا افسوس ہے کہ اس ترقی میں طبیعت کی بلند پروازی سے اوپر کی طرف رُخ کیا، کاش آگے قدم بڑھاتے تا کہ حُسن و عشق کے محدود صحن سے نکل جاتے اور اِن میدانوں میں گھوڑے دوڑاتے کہ نہ ان کی وسعت کی انتہا ہے نہ عجائب و لطائف کا شمار ہے، اس بات کو نہ بھولنا چاہیے کہ خان آرزو کی فیضِ صحبت نے ان نوجوانوں کے کمال کو اس طرح پرورش کیا جس طرح دایہ اپنے دامن میں ہونہار بچوں کو پالتی (دیکھو صفحہ نمبر) ہے۔ میں نے طبقہ دوم اور سوم کے اکثر استادوں کے حال مجمل طور پر حواشی میں لکھ دیئے ہیں اور اکثر کے نام و کلام سے یہ جام خالی ہے، حقیقت میں اُن سبکو اُردو کی اصلاح کا حق حاصل ہے، لیکن اپنے اُستادوں اور بزرگوں سے یہی سُنا کہ مرزا جانجاناں، سودا، میر، خواجہ میر درد چار شخص تھے جنھوں نے زبان اُردو کو خراد اُتارا ہے۔
ہمارے زبان دانوں کا قول ہے کہ ۶۰ برس کے بعد ہر زبان میں ایک واضح فرق پیدا ہو جاتا ہے، طبقہ سوم کے اشخاص جو حقیقت میں عمارت اُردو کے معمار ہیں انھوں نے بہت سے الفاظ پُرانے سمجھ کر چھوڑ دیئے، اور بہت سی فارسی کی ترکیبیں جو مصری کی ڈلیوں کی طرح دودھ کے ساتھ منہ میں آتی تھیں انھیں گھُلایا، پھر بھی بہ نسبت حال کے بہت سی باتیں اُن کے کلام میں ایسی تھیں کہ اب متروک ہیں، چنانچہ فارسیت کی ترکیبوں کے اشعار دیباچہ میں لکھے گئے۔ (دیکھو صفحہ)
لیکن پُرانے الفاظ جو اب متروک ہیں ان کی مثال کے چند اشعار میر اور مرزا اور خواجہ میر درد کے کلام سے لکھتا ہوں پھر بھی انصاف سے نہیں گزرا جاتا، ان میں اپنی اپنی جگہ ایک ایک لفظ ایسا جڑا ہوا ہے، جسے اٹھانا مشکل ہے۔
ہوتا تھا مجلس آرا گر غیر کا تو مجھ کو
مانند شمع مجلس کاہے کو تیں جلایا
نقاش دیکھ تو میں کیا نقش یار کھینچا
اس شوخ کم نما کا نِت انتظار کھینچا
دیر و حرم میں کیونکہ قدم رکھ سکے گا میر
ایدھر تو اس سے بُت پھرا ادھر خدا پھرا
ٹک بھی نہ مڑ کے میری طرف تو نے کی نگاہ
ایک عمر تیرے پیچھے میں ظالم لگا پھرا
گل و آئینہ کیا؟ خورشید و مہ کیا
جدھر دیکھا تدھر تیرا ہی رو تھا
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دُعا کر چلے
رسم قلمرو عشق مت پوچھ تو کہ ناحق
ایکوں کی کھال کھینچی ایکوں کا وار کھینچا
لوہو لگتا ہے ٹپکنے جو پلک ماروں ہوں
اب تو یہ رنگ ہی اس دیدہ اشک افشاں کا
کیونکر تمھاری بات کرے کوئی اعتبار
ظاہر میں کیا کہو ہو سخن زیر لب ہے کیا
سیمیں تنوں کا ملنا چاہے ہے کچھ تمول
شاہد پرستیوں کا ہم پاس زر کہاں ہے
تابمقدور انتظار کیا
دل نے اب زور بے قرار کیا
خونِ جگر ہو بہنے لاگا
پلکوں ہی پر رہنے لاگا
پی پی کے اپنا لوہو رہیں گو کہ ہم ضعیف
جُوں رینگتی نہیں ہے انھوں کے تو کان پر
کیفیتیں ہزار ہیں اس کام جاں کے بیچ
دیتے ہیں لوگ جان تو ایک ایک آن پر
تازہ جھمک تھی شب کو تاروں میں آسمان کی
اِس آسیا کو شاید پھر ہے کنہو نے ہارا
زمانہ نے مجھ جرعہ کش کو ندان
کیا خاک و خشت سر خم کیا
دِل لے کے میری جان کا دشمن ہوا ندان
جس بیوفا سے اپنے تئیں پیار ہو گیا
گہے خونِ جگر گہ اشک گاہے لختِ دل یارو
کسی نے بھی کہیں دیکھا ہے یہ بستار رونے کا
کہا تھا میں نہ دیکھو غیر کی اور
سو اُس نے آنکھ مجھ سے ہی چھپائی
آنکھوں نے میر صاحب قبلہ سِتم کیا
حضرت بُکا کیا نہ کرو رات کے تئیں
باہر نہ آتا چاہ سے یوسف جو جانتا
لے کارواں مرے تئیں بازار جائے گا
ہز ذرہ خاک تیری گلی کی ہے بے قرار
یاں کونسا ستم زدہ ماٹی میں رُل گیا
آتشِ تیر جدائی سے یکایک اس بن
یوں جلا دِل کہ تنک جی بھی جلایا نہ گیا
رہے خیال تنک ہم بھی رُو سیاہوں کا
لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا
ہو اس سے جہاں سیاہ تد بھی
نالہ میں مرے اثر نہ ہو گا
مت رنج کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد
دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا
بس طبیب اُٹھ جا مرے بالیں سے مت دے دردِ سر
کامِ جاں آخر ہوا اب فائدہ تدبیر کا؟
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو ۱۰۰ مرتبہ لوٹا گیا
حیف دے اُن کنے اس وقت میں پہنچا جس وقت
اُن کنے حال اشاروں سے بتایا نہ گیا
لگوائے پتھرے اور پُرا بھی کہا کئے
تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کئے
ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں
میر کو تم عبث اُداس کیا
ا س عہد میں استمراری جمع مؤنث میں دونوں فعل جمع لاتے تھے، مثلاً عورتیں آئیاں تھیں اور گاتیاں تھیں، اب پہلے فعل کو واحد لاتے ہیں، مثلاً عورتیں آتی تھیں اور گاتی بجاتی تھیں۔
بارہو وعدوں کی راتیں آئیاں
طالعوں نے صبح کر دکھلائیاں
جنوں میرے کی باتیں دشتِ گلشن میں جہاں چلیاں
نہ چوبِ گِل نے دم مارا نہ چھڑیاں پرند کی ہلیاں
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہلنا بالفتح بولتے تھے، چنانچہ سودا بھی ایک غزل میں کہتے ہیں جس کا قافیہ ردیف ہے چلتے دیکھا، نکلتے دیکھا :
تیغ تیرے کا سدا شُکر ادا کرتے ہیں
لبوں کو زخم کے دن رات میں بنتے دیکھا
اسی طرح اکثر اشعار مرزا رفیع کے ہیں باوجود محاورہ قدیمانہ، آج کل کے ہزار محاورے اِن پر قربان ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں :
آ خدا کے واسطے اس بانکپن سے درگزر
کل میں سودا یوں کہا دامان کھگریار کا
بیوفائی کیا کہوں دل ساتھ تجھ کو محبوب کی
تیری نسبت تو میاں بلبل سے گل نے خوب کی
جسکے دلکو تری زلفوں سے یہاں لاگ لگے
اس کی آنکھوں میں جو رسی بھی ہو تو ناگ لگے
تجھ عشق میں پیارے وہ زیرِ چوب گل ہیں
نے پھول کی کسی نے جن کو چھڑی لگائی
خبر شتاب لے سودا کے حال کی پیارے
نہیں ہے وقت مری جان یہ تامل کا
نجانے حال کس ساقی کو یاد آتا ہے شیشہ کا
کہ لے لے ہچکیاں جیوڑا نکل جاتا ہے شیشہ کا
نہ جانے یاد کر روتا ہے کس کے دلکے صدمہ کو
کہیں ٹکڑا جو سودا کو نظر آتا ہے شیشہ کا
بیہودہ اس قدر نہیں آتا ہے کم نا
مکھ پر خط آ چکا نہ کرو صبح و شام ناز
عالم کو مار رکھا ہے تیں با قد و وتا
زاہد یہ کاٹ ہے تری تیغِ دونیم کا
سوداؔ کہے تھا یار سے ایک مو نہیں غرض
اودھر کھلی جو زلف ادھر دل بکھر چلا
سوداؔ نکل نہ گھر سے کہ اب تجھ کو ڈھونڈتے
لڑکے پھریں ہیں پتھروں سے دامن بھرے ہوئے
تسلی اس دوا نے کی نہ ہو جھولی کے پتھروں سے
اگر سوداؔ کو چھیڑا ہے تو لڑکو مول لو پھڑیاں
نگر آباد ہیں بَسے، ہیں گانوں
تجھ بِن اُجڑے پڑے ہیں اپنے بھاؤں
قیس و فرہاد کا نہیں کچھ ذکر
ابے تو سودا کا باجتا ہے ناؤں
جاتے ہیں لوگ قافلے کے پیش و پس چلے
ہے یہ عجب سَرا کہ جہاں آئے بَس چلے
اس غزل میں قفس چلے اور بس چلے قافیہ ہے، اسی میں کہتے ہیں۔
صیاد اب تو کر دے قفس سے ہمیں رِہا
ظالم پھڑک پھڑک کے پر و بال گھس چلے
(پنجاب میں اب تک گھسنا بالفتح بولتے ہیں )
صبا سے ہر گھڑی مجھ کو لہو کی باس آتی ہے
چمن میں آہ گلچیں نے یہ کس بلبل کا دل توڑا
موجب مری رنجش کا جو پوچھے ہے تو اے جان
موندوں گا نہ میں کھول کے جوں غنچہ دہاں کو
داغ تجھ عشق کا جھمکے ہے مرے دل کے بیچ
مہر ذرہ میں درخشاں نہ ہوا تھا سو ہوا
وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
بل بے ساقی تیری بے پروائیاں
جانیں مشتاقوں کی لب تک آئیاں
اِسی طرح ہندی صفت میں اب جمع نہیں لاتے :
ملائم ہو گئیں دل پریت کی ساعتیں کڑیاں
یہ انکھیاں کیوں مرے جی کے گلے کی ہار ہو پڑیاں
چیز کیا ہوں جو کریں قتل وہ انکھیاں مجھ کو
پھر گئے دیکھ کے منھ خنجرِ براں مجھ کو
خیال اِن انکھڑیوں کا چھوڑ مت مرنے کے بعد اب بھی
ولا آیا جو تو اس میکدہ میں جام لیتا تھا
ناتوانی بھی عجب شے ہے کہ گلشن میں نسیم
نت لئے پھرتی ہے دوش اوپر برنگ بُو مجھے
فارسی کی جمع کو اس وقت سب فصحا عموماً بولتے تھے، اب بغیر حالت صفت یا اضافت کے نہیں بولتے، سودا کہتے ہیں :
سودا غزل چمن میں تو ایسی ہی کہہ کے لا
گل پھاڑیں سن کے جیب کو دیں بلبلاں صدا
ہاتھ سے جاتا رہا دِل
دیکھ محبوباں کی چال
اور ایک جگہ کہتے ہیں :
یا الہی میں کہوں کسی سیتی اپنا احوال
زلف خوباں کی ہوئی ہے مرے جی کو جنجال
خوباں اور محبوباں مرزا کی زبان پر بہت چڑھے ہوئے ہیں۔
اور خواجہ میر درد علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :
پرورش غم کی ترے یاں تئیں تو کی دیکھا
کوئی بھی داغ تھا سینہ میں کہ ناسور نہ تھا
تو کب تئیں مجھ سات مری جان ملے گا
ایسا بھی کبھی ہو گا کہ پھر آن ملے گا
گو نالہ نارسا ہو نہ ہو آہ میں اثر
میں نے تو درگزر نہ کی جو مجھ سے ہو سکا
ساتی مرے بھی دل کی طرف ٹک نگاہ کر
لب تشنہ تیری بزم میں یہ جام رہ گیا
اے آنسو نہ آوے، کچھ دل کی بات منھ پر
لڑکے ہو تم کہیں مت افشائے راز کرنا
ہم جانتے نہیں ہیں اے درد کیا ہے کعبہ
جیدھر ملے وہ ابرو اودھر نماز کرنا
کہا میں مرا حال تم تک بھی پہنچا
کہا تب اچٹتا سا کچھ میں سُنا تھا
مرے دل کو جو ہر دم تو بھلا اتنا ٹٹولے ہے
تصور کے سوا تیرے بتا تو اس میں کیا نکلا؟
جائیے کس واسطے اے درد میخانے کے بیچ
اور ہی ہستی ہے اپنے دل کے پیمانے کے بیچ
سو (۱۰۰) بار دیکھیاں ہیں تیری بے وفائیاں
تس پر بھی نت غرور ہے دل میں گناہ کا
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہو گا
کہ نہ ہنستے ہی رو دیا ہو گا
درد کے ملنے سے اے یار بُرا کیوں مانے
اس کو کچھ اور سِوا دید کے منظور نہ تھا
اے شانہ تو نہ ہو جو دشمن ہمارے جی کا
کہیں دیکھیو نہ ہووے زلفوں کا بال بیکا
اگر تجھ کو چلنا ہے چل ساتھ میرے
یہ کب تک تو باتیں بناتا رہے گا
بعد مدت کے درد کل مجھ سے
مِل گیا راہ میں وہ غنچہ دہن
میری اس کی جو لڑ گئی نظریں
ہو گئے آنکھوں میں ہی دود و بچن
اِن کے عہد میں زبان میں کچھ کچھ اصلاح ہو گئی۔ مگر رسم الخط میں بہت کچھ بزرگوں کی میراث باقی تھی، ایک مجموعہ میرے ہاتھ آیا کہ 1170ھ کی تحریر ہے۔ وہ کسی فہمیدہ شخص نے بڑے شوق سے لکھا ہے، اس میں میر سوزؔ، تاباںؔ، فغاںؔ، سوداؔ، خواجہ میر دردؔ، انعام اللہ خاںؔ، خواجہ آبروؔ، میر محمد باقر حزیںؔ، میر کمال الدین شاعرؔ، خواجہ احسن اللہ خاں بیانؔ، قائم الدین قائمؔ کے دیوانوں کی انتخاب غزلیں ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس عہد میں کو علامت مفعول کوں لکھا جاتا ہے۔ چنانچہ شاہ آبروؔ اور کمال الدین شاعرؔ وغیرہ نے جن غزلوں میں کو ردیف ہے اُنھیں ردیف ن ہی میں لکھا ہے۔ متاخرین نے ن کو دُور کیا۔ مگر معلوم ہوتا ہے واؤ معروف ہی بولتے تھے، چنانچہ میر اثر نے کہ خواجہ میر دردؔ کے بھائی تھے، ایک بے ردیف غزل میں مو، رد، قافیہ رکھا ہے اور کو، استفہامیہ باندھا ہے۔ مرزا رفیع نے بھی ایک جگہ ایسا کہا ہے، ان کی ایک غزل ہے، قفس کو، جرس کو، نفس کو، اس کا مقطع یہ ہے :
ترغیب نہ کر سیرِ چمن کی ہمیں سوداؔ
ہر چند ہوا خوب ہے واں لیک ہوس کو
ایک غزل ہے ابرو نہیں، گیسو نہیں، اس میں کہتے ہیں :
خطِ سبز اُس کی سیہ، کچھ رد ہوا میرا سفید
خواہش ترکِ نیا زد و ناز دونوں کو نہیں
سُن کے ترکِ عشق میرا ہنس کے کہتا ہے وہ شوخ
نیل بگڑا ہے کہیں یارو یقیں مجھ کو نہیں
الفاظ مفصلہ ذیل کی رسم الخط اس عہد میں اس طرح تھی :
تو۔۔۔ توں
مجھے۔۔۔ مجھ سیں
اُس نے۔۔۔ اُنے
تجھ۔۔۔ تجھ کوں
سے۔۔۔ سیں
تو نے۔۔۔ تو نیں
جس نے۔۔۔ جِنے
کسے۔۔۔ کسو
اس سے۔۔۔ اس سین
جوں۔۔۔ جیوں
جی۔۔۔ جیو
اشعار مذکورہ بالا جو کہ حقیقت میں ایک محاورہ مرحوم کے نقشِ مزار ہیں، میں نہیں جانتا کہ نئے ہونہار یا اگلے وقتوں کی جو یادگار باقی ہیں انھیں پڑھ کر کہاں تک خیالات کو وسعت دیں گے۔ مجھے اس لکھنے سے فقط یہی مطلب نہیں کہ اس عہد تک زبان پر اس قدر قدامت کا اثر باقی تھا بلکہ ایک بڑی بات کا افسوس ظاہر کرنا منظور ہے وہ یہ ہے کہ سوداؔ کی ۷۵ برس کی اپنی عمر اور تخمیناً ۵۵، ۶۰ برس ان کی شاعری کی عمر، میرؔ کی ۱۰۰ برس کی عمر، شاعری کی ۸۰، ۸۵ برس کی عمر اور اس بات سے کسی کو انکار نہ ہو گا کہ جو زبان دلی کی اُن کے اوائل کلام میں تھی وہی اوسط میں نہ تھی، پھر وہی اواخر میں نہ تھی، یقیناً تینوں زبانوں میں ظاہر اور واضح امتیاز ہوئے ہوں گے مگر چونکہ رسمِ ملک نے دیوانوں کی ترکیب حروفِ تہجی پر رکھی ہے، اس لئے آج ہم معلوم نہیں کر سکتے کہ ان کے عہدوں میں وقت بوقت ملکی زبانوں میں کیا کیا انقلاب ہوئے یا مختلف وقتوں میں خود اُن کی طبیعت کے میلان اور زورِ کلام کے اُتار چڑھاؤ کس کس درجہ پر تھے۔
اس اندھیرے میں فقط دو شاعر ہمارے لئے چراغ رکھ گئے ہیں کہ حسب تفصیل ذیل چند قسموں میں اپنے کلام کو تقسیم کیا :
اوائلِ عمر
عہدِ جوانی
سن کہولۃ
پیرانہ سالی
(۱) امیر خسرو : تحفتہ الصغر، غرۃ الکمال، وسط الحیٰوۃ، بقیہ نقیۃ
(۲) جامیؔ : فاتحۃ الشباب، واسطتہ العقد، خاتمتہ الحیٰوۃ
خیر یہ سمجھ لو کہ جن الفاظ پر ہم لوگوں کے بہت کان کھڑے ہوتے ہیں، یہی اُن کے اوائلِ عمر یا جوانی کے کلام ہیں، منشی احمدؔ حسن خاں صاحب میر تقی مرحوم کے شاگرد رشید تھے۔ اِن کی زبانی ڈپٹی کلب حسین خاں صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ اکثر الفاظ جو میر صاحب پہلے دوسرے دیوان میں کہہ گئے ہیں وہ چوتھے پانچویں میں نہیں ہیں، جو دوسرے تیسرے میں ہیں وہ پانچویں چھٹے میں نہیں۔ بہر حال اخیر عمر میں ان کی زبان کا اندازہ ہو گا جو کہ سید انشاؔء، مصحفیؔ، جرأت کی زبان ہے۔ واللہ اعلم بحقیقتۃ الحال۔