آئے ہیں میرؔ منہ کو بنائے خفا سے آج
Appearance
آئے ہیں میرؔ منہ کو بنائے خفا سے آج
شاید بگڑ گئی ہے کچھ اس بے وفا سے آج
واشد ہوئی نہ دل کو فقیروں کے بھی ملے
کھلتی نہیں گرہ یہ کسو کی دعا سے آج
جینے میں اختیار نہیں ورنہ ہم نشیں
ہم چاہتے ہیں موت تو اپنی خدا سے آج
ساقی ٹک ایک موسم گل کی طرف بھی دیکھ
ٹپکا پڑے ہے رنگ چمن میں ہوا سے آج
تھا جی میں اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میرؔ
پر کچھ کہا گیا نہ غم دل حیا سے آج
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |