آئے کیا تیرا تصور دھیان میں
Appearance
آئے کیا تیرا تصور دھیان میں
کچھ سے کچھ ہے آن ہی کی آن میں
یاں اشارات غلط پر زندگی
واں ادا ہے اور ہی سامان میں
تیغ قاتل ہے رگ گردن مری
آب پیکاں دم تن بے جان میں
یا تو قاتل ہو گیا رحم آشنا
یا پڑے ہوں گے کہیں میدان میں
اشک اپنے پھر پھرا کر ہر طرف
آئے آخر تیرے ہی دامان میں
ہائے کیسے کیسے وارستہ مزاج
سرنگوں دم بند ہیں زندان میں
کعبہ آنکھوں میں سماتا ہی نہیں
کیا بتوں نے کہہ دیا کچھ کان میں
آنکھ کے اٹھتے ہی اٹھتے کچھ نہ تھا
ہم چلے ارمان ہی ارمان میں
دیر و کعبہ پر نہیں موقوف کچھ
اور ہی کچھ شان ہے ہر شان میں
گریۂ صد سری اور ہم کم حوصلہ
کشتی اپنی آ گئی طوفان میں
جنت و دوزخ سے کیا امید و بیم
حسرتیں سی حسرتیں ہیں جان میں
خود پرستی اور اسلام آفریں
کعبۂ عاشق ہے کفرستان میں
اے قلقؔ کل تک گدائے دیر تھے
آج دعوے ہو گئے ایمان میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |