آئینۂ دل میں کچھ اگر ہے
Appearance
آئینۂ دل میں کچھ اگر ہے
تیرا ہی جمال جلوہ گر ہے
ہم مر گئے تیری جستجو میں
بے رحم کہاں ہے تو کدھر ہے
رہبر نہیں چاہتی رہ عشق
واں شوق ہی اپنا راہ بر ہے
کیوں مارے ہے لاف حج اکبر
اپنے کئے پر بھی کچھ نظر ہے
کعبے سی جگہ پہنچ پھر آیا
تو حاجی نہیں ہے گیدی خر ہے
اس در ہی کی آرزو میں ؔجوشش
یہ مشت غبار در بہ در ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |