آئینہ خود نمائی ان کو سکھا رہا ہے
Appearance
آئینہ خود نمائی ان کو سکھا رہا ہے
کیا قہر کر رہا ہے کیا ظلم ڈھا رہا ہے
آنسو بہا رہا ہے وہ سوز دل پہ میرے
خود ہی لگا کے ظالم خود ہی بجھا رہا ہے
ان کو تو ہم نے چاہا وہ یوں ستا رہے ہیں
اے چرخ کینہ پرور تو کیوں ستا رہا ہے
آزردہ غیر سے ہیں لیتا ہوں میں بلائیں
روٹھے ہیں وہ کسی سے کوئی منا رہا ہے
کوچے میں ان بتوں نے رہنے دیا نہ شاید
سنتے ہیں اب رساؔ بھی کعبے کو جا رہا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |